Kal Aur Aaj Aur Hamara Rawaiya
کل اور آج اور ہمارا رویہ
اگر آپ کےوالدین حیات ہیں (اور اللہ انہیں لمبی عمر اور اچھی صحت دے) تو ان سے پوچھیں کل تک فون لگوانا کتنا مشکل کام تھا۔ فون لگوانے کے بعد بھی اس بات کی ضمانت نہیں تھی کہ لائن ہمیشہ چلتی رہے گی۔ اور اس زمانے میں موبائل فون نہیں آئی تھی اور آئی بھی تھی تو صرف امیروں کے پہنچ میں تھی۔ لہذا ہر جگہ فون لے جانا ممکن نہ تھا۔ پھر وہ پیکچ وغیرہ کا دور بھی نہ تھا۔ ایک فون کال بہت مہنگی پڑتی تھی لوگوں کو۔
آج ہر بندے کے پاس فون ہے، اور محض فون ہی نہیں بلکہ ایک پورا جہان ہے۔ ٹی وی، انٹرنیٹ، کیمرہ، سوشل میڈیا۔۔ میں حیران ہوتا ہوں جب نوکر اور چپڑاسی کے پاس بھی سمارٹ فون دیکھتا ہوں۔ میں نے 2020ء میں سمارٹ فون لیا، اور وہ بھی میری والدہ اور اہلیہ کے اصرار پر۔
یہ معاملہ صرف موبائل فون تک محدود نہیں۔ آج سے بیس سال پہلے، صرف چند سو لوگوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی۔ اور اس انٹرنیٹ کا حال مت پوچھیں مجھ سے۔ ایک ویب سائٹ کھولنے کے لیے باقائدہ مشق کرنی پڑتی تھی۔ ایک مہنگا کارڈ خریدنا پڑتا تھا۔ پھر عجیب سی آواز آتی رہتی تھی۔ آج کے بچوں کو وہ انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے دیں تو وہ تو آپ کی اسکرین توڑ دیں گے۔ چند سیکنڈوں کے لیے انٹرنیٹ چلا جائے تو ہماری سانسیں رک جاتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کا تو روزگار اس نعمت سے وابستہ ہے۔ صرف آئی ٹی اور سافٹ وئیر والوں کا روزگار اس سے نہیں جڑا، بلکہ فری لانسرز، یوٹوبرز، وی لاگرز وغیرہ جیسے لوگ بھی اس سے مالی طور پر منسلک ہیں۔ کل تک گھر بیٹھ کر کمانا صرف عورتوں کا کام سمجھا جاتا تھا، آج مرد بھی گھر بیٹھے پیسے کما رہے ہیں انٹرنیٹ کے ذریعے۔
اسی طرح کل تک کوئی چیز بیچنی ہوتی تھی یا کوئی آسامی ڈھونڈنی ہوتی تھی یا کسی نوکری کا اشتہار دینا ہوتا تھا تو اخبارات کا سہارا لیا جاتا تھا۔ اخبار میں اشتہار دینے کے لیے اخبار کے دفتر جانا ہوتا تھا، پھر پیسے لگتےتھے۔ آج یہ سارا کام انٹرنیٹ پر منتقل ہوگیا ہے، ساتھ ساتھ یہ کام مفت بھی ہوگیا ہے۔ میرے گھر میں کوئی بھی چیز ہو جو استعمال میں نہ آرہی ہو، اس کو میں اپنی اہلیہ کے سپرد کردیتا ہوں جب پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میری اہلیہ دو یا تین دن میں مجھے پیسے دے دیتی ہیں ان چیزوں کو بیچ کر۔ حالانکہ وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں نہ کسی سے رابتہ کرتی ہیں فون پر۔ ایک ویب سائٹ پر اشتہار ڈالتی ہیں بس۔ پھر جسےسامان خریدنا ہوتا ہے وہ رابتہ کرتا ہے مجھ سے۔ پھر سامان ہاتھوں ہاتھ بیچ دیا جاتا ہے۔ کل تک یہ سب ممکن نہ تھا اتنی آسانی سے۔
اب میں کمپیوٹر کا بھی ذکر کرسکتا ہوں، ان شاہراہوں کا بھی جو کل تک موجود نہ تھیں، اور بھی بے شمار تبدیلیوں کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اتنا وقت نہیں۔ لیکن چلیں ایک اور مثبت تبدیلی کا ذکر ہوجائے۔
آج سے بیس سال پہلے میں نے کئی امیروں کے گھر میں جنریٹر اور یو پی ایس نہیں دیکھا تھا۔ ہمارے ایک رشتے دار ہیں، جن کو میں رئیس اور جاگیر دار کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا، ان کے گھر میں بھی مجھے یاد ہے جب لائٹ جاتی تو موم بتی یا گیس کے گولے کا سہارا لیا جاتا تھا۔ آج سولر، یو پی ایس اور جنریٹر جیسی سہولتیں موجود ہیں۔ امیر تو فائدہ اٹھا ہی رہے ہیں، غریب بھی اس سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ کئی غریب لوگوں نےسولر پلیٹس لگائی ہوئی ہیں اپنی چھت پر۔ نتیجہ، کافی حد تک واپڈا سے چھٹکارا۔
لیکن کسی بھی شخص سے آپ نے شکر کے کلمات سنے ہیں اس حوالے سے؟ میں ایک بار موبائل میں بیلنس ڈلوانے گیا ایک دکان پر، دکان دارکہنے لگا یہ کمپنیاں لوٹ رہی ہیں لوگوں کو۔ پتہ نہیں کون کون سے چارجز ڈال دیتے ہیں ہم پر۔ کٹوتی کے اوپر کٹوتی۔ میں نے دل ہی دل میں کہا، کل تک یہی لوگ روتے تھے کہ فون لگوانے کے لیے لائن مین کو رشوت دینی پڑتی ہے، بہت عرصہ انتظار کیا جاتا ہے، تب جاکر فون لگتی ہے۔ لیکن آج جب ہم اس مصیبت سے نکل آئے ہیں تو اپنے ماضی پر نگاہ نہیں رکھ رہے۔ ہم دنیا میں جنت چاہتے ہیں کسی بھی چیز میں نقص ذرہ برابر بھی ہو، ہم تنقید کرنے کا موقع نہیں چھوڑتے۔
ماضی کے مقابلے میں زیادہ تیز انٹرنیٹ استعمال کرکے اپنی وڈیوز مونی ٹائز کرواکے، سپونسر سے روپیہ کماکر ہم مصروف ہوجاتےہیں ہر چیز پر تنقید کرنے کے لیے۔ بے شک پہلے سے تیز نیٹ ہے، لیکن ہم کہتے رہتے ہیں کہ "بھئی!دنیا میں فائیو جی آچکا ہے اور ہم یہیں پھنسے ہوئے ہیں"۔ بھئی!مجھ سے لکھوا لیں، کل ٹین جی بھی آگیا ناں، ہم نے نقص ہی نکالنا ہے۔ جو ہے اس کی قدر نہیں، مزید چاہیے۔
چند دنوں پہلے میں ایک نام نہاد دانشور کی وڈیو دیکھ رہا تھا۔ موصوف کے بال بھی سر پر موجود نہیں اور گفتگو دیکھ کر لگتا ہے اندر دماغ بھی قحط کا شکار ہے۔ ایک جگہ بیٹھ کر ملک کے تمام معاملات پر موصوف گفتگو کر رہے تھے۔ کوئی دلیل، سند وغیرہ پیش کیے بغیر۔ (یعنی مطالعہ صفر ہے۔)اور ایسے ایسے موضوعات پر گفتگو کر رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اقتصادیات، ٹیکنولوجی، انفراسٹرکچر۔۔ (کسی ایک شعبے کے حوالے سے بھی موصوف کی تحقیق یا تجربہ صفر ہے۔ لیکن خیر تنقید کے لیے یہ سب نہیں چاہیے، محض زبان کافی ہے)اور موصوف صرف ایک ہی چورن بیچتے ہیں فلاں ملک میں یہ ہے، پاکستان ابھی بھی یہاں کھڑا ہے۔ سبحان اللہ!
قرآن کا پیغام بڑا واضح ہے اس حوالے سے۔ سورۃ تکاثر کی پہلی دو آیات میں اللہ نے بیان کیا کہ "تم کو کثرت نے بھٹکائے رکھا۔ حتی کہ تم نے اپنی قبر کی زیارت کرلی۔ "یعنی کثرت کے طلب گار کبھی سیر نہ ہونگے۔ وہ چلاتے ہی رہیں گے مزید کے لیے، موجودہ چیزوں پر شکر نہیں کریں گے۔ اور اگر شکر نہیں کریں گے تو اللہ کا یہ فرمان ملاحظہ کریں۔ اللہ تعالی کا کہنا ہے:"اگر تم شکرگزار رہو گے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا، اور اگر کفر(یعنی ناشکری)کی تو بے شک میرا عذاب شدید ہے۔ "(سورۃ ابراہیم، آیت 7)
وسائل کم نہیں ہمارے پاس۔ سب کچھ ہے، سوائے شکر کے۔