Ghulam Kon Azad Kon?
غلام کون اور آزاد کون؟

آج سے تین سال پہلے ایک سیاسی لیڈر نے ہمیں بتایا کہ موجودہ پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت ہمیں غلام بنارہی ہے۔ دوسری طرف ہمیں بتایا گیا کہ بھارت ایک آزاد ملک ہے، اس کی خارجہ پالیسی کی تعریف کی گئی، علی الاعلان کہا گیا کہ بھارت ہم سے بہتر ملک ہے۔ حتی کہ اپنے ہی ملک کے جرنیلوں اور فوجیوں کا موازنہ کیا گیا اور وہ بھی دشمن ملک بھارت کے فوجیوں اور جرنیلوں کے ساتھ۔
تین سال پہلے ایک شخص نے کھڑے ہوکر یہ چورن بیچا اور اس کا یہ منجن خوب بکا، لوگوں نے آنکھ بند کرکے یہ چورن خریدلیا۔ لیکن بہت سے سستے، جعلی بازارکے سامان کی طرح یہ چورن اور منجن کھوکھلا نکلا۔ اب دو قسم کے لوگ ہیں جنہوں نے یہ چورن خریدا۔ ایک وہ ہیں جو اپنی حماقت نہیں مانیں گے، وہ ضدی بچے کی طرح اپنی جہالت پر قائم رہیں گے۔ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو حقائق کی دنیا کے باسی ہیں، وہ اب ا س چورن کی دو نمبری سے آگاہ ہوگئے ہیں۔
آج خود بھارت میں یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ بھارت سفارتی سطح پر تنہا تھا، اس کی اس جنگ میں کسی نے حمایت نہیں کی۔ کسی ملک نے بھارت کی تائید نہیں کی۔ جبکہ پاکستان کے بارے میں یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس کی حمایت میں چین، ترکی اور آذربائیجان نے آواز بلند کی اور اس کی اس جنگ میں مدد کی۔ جنگ سے پہلے ہی بھارت کو دنیا کے تمام ممالک عسکری کاروائی سے روک رہے تھے۔ دوسری جانب آج پوری دنیا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تعریف کر رہی ہے۔
اب تو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پچھلے تین سال سے ہمارے ایک سیاسی رہنما، جن کا میں اس مضمون کی ابتدا میں ذکر کر چکا ہوں اور فوج کے درمیان لڑائی چل رہی ہے اور یہ لڑائی مزید تیز ہوگئی جب موجودہ سپہ سالار فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاک فوج کی کمان سنبھالی۔ دو منٹ کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر اور جس بے شرم سیاسی رہنما کا میں ذکر کر رہا ہوں، ان دونوں کی ذات کا موازنہ کرتے ہیں۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کا تعلق اس مہاجر گھرانے سے ہے جنہوں نے آزادی کے وقت مشرقی پنجاب سے حجرت کرکے پاکستان میں رہائیش اختیار کی۔ فیلڈ مارشل کے والد صاحب ایک مسجد کے امام اور پرنسپل رہ چکے ہیں۔ جس دور میں فیلڈ مارشل کے والد پرنسپل تھے اس وقت پرنسپل حضرات کی عزت بہت ہوتی تھی، لیکن تنخواہ اور مراعات کے نام پر بہت کم پیسے ملتے تھے اور کوئی بھی ایک دن میں پرنسپل نہیں بنتا۔ کئی سال بطور استاد انہوں نے بچوں کو پڑھایا ہوگا۔ یوں کہہ لیجیے کہ جنرل صاحب کا تعلق ایک متوسط طبقے کے گھرانے سے ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر پاک فوج میں بھرتی ہوئے اور اپنے بیچ کے سب سے اعلی کارکردگی دکھانے والے کیڈٹ تھے، جس کی بدولت وہ آج بھی صاحب شمشیر جانے جاتے ہیں (بہترین کارکردگی پر کیڈت کو بطور انعام تلوار دی جاتی ہے)۔ ایک مسجد کے امام کے فرزند ہونے کے باوجود، جنرل عاصم منیر فوج میں اس مقام کو پہنچے کہ ان کا نام فوج کی سپہ سالاری کے عہدے کے لیے پہلے نمبر پر تھا اور یوں وہ پاکستان کے سب سے طاقتور شخص بن گئے۔
کوئی اور قوم ہوتی تو فیلڈ مارشل صاحب کی کہانی پر فخر کرتی کہ کیسے ایک مسجد کے امام کا فرزند ملک کا سب سے طاقتور شخص بن گیا۔ اب فیلڈ مارشل صاحب کا کوئی رشتہ دار نہ جرنیل رہ چکا ہے، نہ صنعتکار، نہ جاگیردار، نہ وزیر اور نہ ہی کسی بھی طاقتور عہدے کے قریب۔ سب سفید پوش تھے، تدریس اور دین کے کام سے وابستہ تھے۔ لہذا فوج میں بھرتی ہونا، پھر صاحب شمشیر بننا، پھر اس جگہ پہنچنا کہ پوری فوج میں آپ کا نام سر فہرست ہو، یہ سفارش کے ذریعے تو نہیں ہوسکتا۔ مسجد کے امام اور پرنسپل کی 80 کی دہائی میں کیا سفارش چلتی ہوگی، وہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ دوسرا موجودہ جنگ نے ثابت کردیا ہے کہ آپ افواج پاکستا ن میں صرف میرٹ پر ہی داخل ہوسکتے ہیں۔
ہاں! میں یہ تو بتانا ہی بھول گیا۔۔ فیلڈ مارشل صاحب نے فوج کی نوکری، جس میں بے حد کام کرنا پڑتا ہے، اس دوران اللہ کا کلام (قرآن پاک) بھی حفظ کرلیا تھا۔ لہذا آج انہیں کئی لوگ حافظ قرآن کہتے ہیں۔
دوسری جانب حافظ صاحب کا حریف کون ہے؟
ایک ایسا شخص جس کو جوانی میں "ایک امیر اور بگڑا ہوا نوجوان" کہا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ وہ مشہور زمانہ پلے بوئے تھا۔ موصوف کی دو شادیاں ناکام رہیں اور تیسری کی بنیاد ہی طہم پرستی پر ہے۔ موصوف قید خانے سے پہلے دو محل نما گھروں میں قیام پزیر ہوتے تھے۔ کبھی زمان پارک تو کبھی بنی گالہ۔ ایک انہیں وراثت میں ملا اور دوسرا موصوف کی پہلی اہلیہ نے تحفہ کے طور پر دیا۔ موصوف کبھی بھی نوکری نہیں کر چکے ہیں، بلکہ 9 سے 5 کام کرنے کو موت سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ موصوف کی زیادہ تر دولت وراثت یا بیوی کے تحفوں پر مشتمل ہے۔ بعد میں ان کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا جب انہوں نے بطور وزیر اعظم ریاستی تحفے بیچے اور رقم اپنی جیب میں ڈال لی۔ اقتدار سے پہلے وہ حضر ت عمرؓ کی مثالیں دیتے تھے۔ وزیراعظم بن کر انہوں نے اپنی بیوی سے تحفے میں ملا محل ریگولرائیز کروایا۔
موصوف کے جتنے بھی محسنین ہیں، سب ان سے آج ناراض ہیں۔ کئی انہیں چھوڑ چکے ہیں۔ موصوف کبھی ایک بیان پر نہیں ٹکتے۔ ان کا نام ہی "یوٹرن"ہوچکا ہے۔ جب وہ اقتدار میں ہوں تو سب ٹھیک ہوتا ہے، جب وہ اقتدار سے باہر ہوں تو راستوں شاہراہوں کی راہ لیتے ہیں اور حتی الامکان ریاست کے خلاف بغاوت اور افراتفری اور خانہ جنگی کی پیش گوئی بھی کرتے ہیں اور اس کے لیے تگ و دو بھی۔ نوجوانوں کو تعلیم کے بجائے ریاست سے بغاوت پر لگاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کو گالیاں دینے کا درس دیتے ہیں۔
بغیر تصدیق اور تحقیق کے الزام لگانا تو موصوف کے لیے سانس لینے کے برابر ہے۔ ایک بار موصوف نے ایک تہائی سال دارالحکومت میں دھرنا دیا، جس کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہوگیا، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری رک گئی، پی ٹی وی کی عمارت تباہ ہوئی، دارالحکومت مذاق بن کر رہ گیا۔۔ بعد میں اس دھرنے کی بنیاد جھوٹی نکلی اور موصوف نے شرمندگی ظاہر کرنے کے بجائے اسے اپنا سیاسی بیان کہہ دیا۔
موصوف نے کھیل کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ بطور وزیر اعظم وہ خود فرما چکے ہیں کہ وہ ڈالر کا نرخ "ٹی وی" کی خبروں کے ذریعے معلوم کرتے تھے۔ موصوف کی معاشی ٹیم اتنی تگڑی تھی کہ ہر تین چار مہینے میں تبدیل ہوتی رہتی تھی۔ ایک بار جرمنی اور جاپان کی سرحدوں تک کو انہوں نے ساتھ ملا دیا تھا۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ انہوں نے ایک نالائق اور نکمے شخص کے حوالے کردیا۔ ایک دہائی سے زائد ان کی جماعت ایک صوبے پر حکومت کر رہی ہے، لیکن کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی دیتی، الٹا دہشتگردی اور بدامنی کی وجہ سے اس صوبے میں فوج آپریشنز کر رہی ہے۔
موصوف کی ایک ناجائز اولاد بھی ہے۔۔ لیکن جلسوں میں انہیں "اسلامی ٹچ" دینے کے لیے کہا جاتا ہے اور وہ اس قدر اسلامی ہیں کہ دھرنے کے لیے وقت نکال سکتے ہیں، بغاوت کے لیے وقت نکال سکتے ہیں، لانگ مارچوں اور جلسوں کے لیے وقت نکال سکتے ہیں، لیکن قرآن پاک کے لیے نہیں۔ جب قید نصیب ہوئی تو بولے خدا کا شکر اب مجھے قرآن پڑھنے کا موقع ملا ہے۔
اب کسی بھی اندھے کو آپ فیلڈ مارشل صاحب اور موصوف کے درمیان انتخاب کرنے کا کہیں گے تو وہ کہے گا بھائی! فیلڈ مارشل صاحب کو پسند کرنا چاہیے اور اس یوٹرن مارنے والے سیاستدان سے نفرت کرنی چاہیے۔ لیکن آج سے دو سال پہلے 9 مئی کو کیا ہوا، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ آج جنگ کی وجہ سے فیلڈ مارشل صاحب کو بہت عزت مل رہی ہے۔
لیکن کچھ ماہ اور کچھ سال میں پھر سے فوج کے بجٹ پر بحث ہوگی۔ جنگ نے ثابت کردیا کہ فوج کا بجٹ اچھی طرح استعمال ہوتا ہے، لیکن جاہل لوگ پھر سے اس موضوع کو زیر بحث لائیں گے۔ پھر سے فوج اور اس کے فیصلوں پر تنقید ہوگی۔
آج جن فوجیوں کی بدولت ہم فلسطین، برمہ، چین اور بھارت کے مسلمانوں کے مقدر سے محفوظ ہیں، جس فوج کی بدولت ہم یوکرین کی طرح اپنی زمین نہیں کھو رہے، اسی فوج کے سپاہیوں پر آج سے دو سال پہلے پتھر برسائے جارہے تھے۔ اسی فوج کے اندر پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ ماضی کے مجاہدین اور شہدا کی یادگاروں کو جلایا جارہا تھا۔
فیلڈ مارشل صاحب آج جنگ کے بعد مقبول ہورہے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک قائم رہتا ہے۔ واللہ اعلم۔ لیکن ہمارا ماضی بتاتا ہے، ہم بے انتہا ناشکرے ہیں۔ فیلڈ مارشل صاحب کی تمام کامیابیوں پر پانی پھیرا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جب ہم ایک تصدیق شدہ زانی کے لیے اپنی ہی محسن فوج کے خلاف ہوسکتے ہیں، تو ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
فی الحال پاکستان کی ترقی اور خوشحالی فیلڈ مارشل صاحب سے جڑی ہے اور اس سے کئی گنا زیادہ فتنہ اور زانی خان کے قید میں رہنے سے۔
ہمارا ماضی بتاتا ہے کہ فوج نے پاکستان کی کتنی بھی خدمت کی ہو، آخر میں ایک جاہل سیاستدان آکر تمام اچھے کاموں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اللہ کرے اس بار ایسا نہ ہو۔
ماضی میں جتنے بھی فوجی ادوار گزرے انہوں نے ملک کو معاشی استحکام دیا۔ لیکن آج تک ان ادوار کے حوالے سے جھوٹ پھیلایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے امریکی اور مغربی امداد سے یہ ممکن ہوپایا۔ اس مغالطے کو کئی ماہر اقتصادیات پاش پاش کرچکے ہیں، جیسے کہ سابق اسٹیٹ بینک کے گورنر عشرت حسین۔ ان کی کتاب "گورننگ دا انگورنیبل"ملاحظہ کیجیے۔ یہ تمام باتیں جھوٹ ہیں کہ فوجی ادوار میں اس لیے ترقی ہوتی ہے کیونکہ باہر سے امداد آتی ہے۔
اللہ کرے اس جنگ میں رافیل طیاروں کے ساتھ فوج اور دو قومی نظریے پر تنقید کرنے والوں کی دکان بھی مکمل طور پر زمین بوس ہوئی ہو۔ اس جنگ نے ان تمام لوگوں کے دعوے غلط ثابت کردیے جو دو قومی نظریے پر تنقید کرتے تھے۔ وہ لوگ جو فوج کو محض بجٹ کھانے والی مشین کہتے تھے۔ آج ان لوگوں کے منہ دیکھیں، مکمل کالے ہوچکے ہیں۔
لہذا، آج جب جشن منایا جارہا ہے اور فیلڈ مارشل صاحب کی تعریف کی جارہی ہے، وہیں دعا کریں کہ یہ سب مستقل رہے۔ ماضی گواہ ہے ہم تمام اچھائیوں کے بدلے ایک سیاستدان کی انگلی کے اشارے پر ناچنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ایک ایسا سیاستدان جس نے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہوتا، بس لوگوں کو خیالوں کی دنیا میں داخل کرکے انہیں سنہرے خواب دکھائے ہوتے ہیں اور ہم ان جعلی خوابوں کو خرید لیتے ہیں اور جو کچھ سامنے ہو، اسے بیچ دیتے ہیں۔
اس بار اللہ کرے یہ سب مستقل رہے۔ لیکن اگر موجودہ جنگ نے جو کچھ ثابت کیا ہے اسے ہم ہلکا لیتے ہیں تو تباہی ہمارا مقدر ہوگی۔ ویسے بھی اللہ نے ہمیں جتنی ڈھیل دے ہے وہ ثابت کرتی ہے کہ مزید ڈھیل اب ممکن نہیں۔
اپنے آپ سے سوال کیجیے گا: کل تک جو ہمارے دفتر خارجہ کو نشانہ بنا رہے تھے اور بھارت کی خارجہ پالیسی کی جلسوں میں تعریف کر رہے تھے، وہ کس کے اشاروں پر ناچ رہے تھے، وہ کس ملک کے ساتھ تھے؟ آج ہماری فوج نے عظیم برترری حاصل کی، اپنے سے دس گنا زیادہ بجٹ رکھنے والے حریف کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا، اس فوج کو دو ڈھائی سال پہلے کون گالیاں دے رہا تھا؟ کون اس فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟ کون فوج کے حوالے سے لوگوں کے دلوں میں زہر داخل کر رہا تھا؟ اور وہ یہ سب کس کے مفاد میں کر رہا تھا؟
پوری کوشش کی گئی کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کا معاہدہ تباہ ہو، پاکستان دیوالیہ ہو، فوج کمزور ہو، ملک میں خانہ جنگی ہو، لوگ اور فوج آمنے سامنے ہوں اور ایسا ہوجاتا تو پاکستا ن کا نقشہ آج کیا ہوتا؟ کیا ہم بھارت کو بھر پور جواب دے پاتے؟ تو سوچیں پچھلے تین سال سے ایک شخص کی کاوشیں کس کے حق میں جارہی تھیں؟ بھارت یا پاکستان؟ اور سوچیں فیلڈ مارشل صاحب کی کاوشیں پاکستان کو کہاں پہنچا رہی ہیں؟
عقل مند جواب جانتا ہے۔
پولیس پر پیٹرول بم پھینکنے والے نوجوان، ملک میں ایک سیاستدان کی ایما پر خانہ جنگی اور بدامنی پھیلانے والے نوجوان، آج قید خانے میں اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ دوسری جانب اپنی پڑھائی اور جسمانی اور ذہنی تندرستی پر توجہ دینے والے پاک فضائیہ میں بھرتی ہوکر دشمن کے طیارے گرا رہے ہیں اور اپنا، اپنےخاندان اور ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ان کو پوری دنیا سلام پیش کر رہی ہے۔ ان کی اس کارکردگی کو تمام دنیا کی فضائی تربیت گاہوں میں پڑھایا جائے گا۔
انجیل میں درج ہے: آپ صحیح لوگوں کو ان کے پھلوں سے پہچان لیں گے۔ اچھا درخت برے پھل نہیں دیتا اور برا درخت اچھے پھل نہیں دے سکتا۔
ان تین سالوں میں کس نے کیسے پھل دیے ہیں، تمام معاملہ اظہر من الشمس ہے۔

