Ivan Aur Boris
ایوان اور بورس
ایک بہت ہی مشہور روسی حکایت ہے جو آج کے ہمارے حالات کی نشاندہی کرتی ہے۔ دو کسان تھے، بورس اور ایوان۔ بورس کے پاس بکری تھی جبکہ ایوان کے پاس نہیں تھی اور وہ اس بات پر افسردہ بھی ہوتا تھا۔ ایک دن ایوان کو ایک بوتل ملتی ہے اور اس میں سے ایک جن نکلتا ہے جو اس سے پوچھتا ہے۔ جو حکم میرے آقا، بتائیے آپ کی کیا خواہش ہے؟ آپ کی ایک خواہش کو پورا کروں گا۔
اب کیونکہ ایک ہی خواہش وہ پوری کر سکتا تھا، لہٰذا ایوان چاہتا تو کہتا کہ میرے پاس زیادہ زمین ہو، یا میں ایک اچھا کسان بن جاؤں یا یہ کہ بورس کی مانند مجھے بھی بکری مل جائے۔ لیکن نہیں۔ اس خودغرض نے فریاد کی کہ بورس کی بکری مار ڈالو کیونکہ پھر نہ میرے پاس بکری ہوگی نہ بورس کے پاس۔ لہٰذا معاملہ برابر ہوگیا۔ اب نہ بورس کے پاس بکری تھی نہ ایوان کے پاس۔
یہ حکایت بڑی خوبصورتی سے عمران خان اور ان کی جماعت اور ان کے ہامیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس حکایت کے فلسفے کو عمران خان اور ان کے چاہنے والوں کی حکمت عملی سے جوڑوں، میں چاہتا ہوں کہ اپنے پچھلے مضمون پر گفتگو کروں۔
میں نے پچھلے مضمون میں کسی بھی مقام پر نواز شریف یا آصف علی زرداری کی تعریف کی نہ ان کی حکومت کو مثالی کہا۔ نہ یہ کہا کہ عمران خان برے ہیں تو ابھی جو حکمران ہیں وہ دودھ کے دھلے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ مضمون میں کوئی بھی بات بلا تصدیق یا تحقیق پیش نہ کی گئی۔ حوالے دیے گئے، گالیوں سے اجتناب کیا گیا، دلیلوں کو پیش نظر رکھ کر بات کی گئی، حتیٰ کہ احادیثِ مبارکہ کا سہارا لیا گیا اپنی بات پیش کرنے کے لیے۔ ("اسلامی ٹچ"دینے کے لیے نہیں، جیسا کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا وطیرہ ہے)۔
میں نے صرف اتنا کہا کہ عمران خان صاحب کی زبان بے لگام ہے اور ان کی شرمگاہ بھی۔ (اور اب تو عمران خان صاحب فحش آڈیو لیکس کی تصدیق کر چکے ہیں، انہوں نے کہا ان باتوں پر پردہ ڈالو، پردہ حقیقی چیز پر ہی ڈلتا ہے نہ کہ جعلی چیز پر)۔ خیر میں نے مضمون لکھا اور اس ویب سائٹ پر شائع کرا دیا۔ نیچے عمران خان صاحب کے ایک چاہنے والے نے میری بات کو سو فیصد سچ ثابت کر دیا۔ مجھے گالیاں دیں، نواز شریف کی ناجائز اولاد کہا، اور بھی بہت کچھ کہا جو میں یہاں نہیں لکھ سکتا۔
لفافہ کہا، کہنے لگے آپ چوروں کی ہمائیت میں سرگرم عمل ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوگا کہ عمران خان خود تو بد زبان ہیں، بلا تصدیق اور تحقیق بات کرتے ہیں، لیکن اس نوجوان نسل کو بھی انہوں نے اس کام پر معمور کر دیا ہے، ان کی ذہنیت آلودہ کر دی ہے، ان کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اللہ ہی ان نوجوانوں پر رحم کرے جو اس بدزبان اور بدلحاظ کی باتوں میں آ گئے ہیں۔
کیونکہ مطالعے اور تحقیق کی عادت تو ہماری قوم میں تھی نہیں۔ اخبار، کتاب اور جرائد کا مطالعہ صرف ادب سے دلچسپی رکھنے والوں تک محدود ہے، لہٰذا عمران خان صاحب کو ایک زرخیز میدان مل گیا ہے اپنی باتوں کی بویائی کے لیے۔ (ان کی ایک آڈیو لیک میں وہ یہ کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن بڑے زرخیز ہیں، اپنا بیانیہ کسی بھی طرح اس میں داخل کریں۔)
خیر، اب آتے ہیں واپس بورس اور ایوان والی حکایت کی جانب۔ ایوان چاہتا تو اپنے لیے بھی بکری مانگتا، لیکن بے شرم لوگوں کی فطرت ایسی نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کی گندی ذہنیت چاہتی ہے کہ اگر ہمارے پاس نہیں تو دوسرے بھی محروم ہوں۔ یہی حال آج عمران خان کا ہے اور ان کے ساتھ جڑے لوگوں کا بھی۔ اور عمران خان کی باتیں اور ان کی عادات بہت تیزی سے معاشرے میں پھیل رہی ہیں۔ لوگ اپنا رہے ہیں ان کی باتوں کو بھی اور ان کی حکمت عملی کو بھی۔
اس بات کا مظاہرہ آپ کو ملے گا موجودہ "پاکستان دیوالیہ ہو رہا ہے یا ہو چکا"کے بیانیے میں۔ دن رات عمران خان اور ان کے چاہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا یا بس دو تین دنوں یا مہینوں میں ہو جائے گا۔ ایک صاحب تو کہنے لگے کہ جی ہوگیا دیوالیہ بس اب بیان کرنا باقی ہے۔ خدا کے بندے کو کوئی بتائے کہ اگر یہ بات ہوتی تو عالمی جریدوں نے اور اخبارات نے اعلان نہیں کرنا تھا؟ کیا وہ حکومت پاکستان کے محتاج ہیں خبریں چلانے کے لیے؟
اور یہ سب وہ بندہ کہہ رہا ہے جو پاکستان کے چار حصوں میں حکومت قائم کر کے بیٹھا ہے۔ کے پی، پنجاب، گلگت اور آزاد کشمیر۔ وہاں آپ نے قرضے سارے اتار دیے؟ ایک صوبے میں 10 سال ہو گئے ہیں، کیا وہاں معاشی آزادی آپ کو مل گئی؟ نہیں۔ بلکہ آپ کا وزیراعلیٰ کہتا ہے کہ وہ وفاق کے پاس جائے گا کیونکہ اس کے پاس پیسے نہیں۔ آپ لوگوں نے تو اخراجات سے زائد آمدن دینی تھی ملک کو۔ ایک چھوٹے سے صوبے کو نہ دے سکے۔ اور پھر بھی بڑی بے شرمی سے کہتے ہیں کہ پورا پاکستان ہمارے حوالے کر دو۔ ڈوب کے مرنے کا مقام ہے عمران خان اور ان کے ہامیوں کے لیے۔ بقول مفتی طارق مسعود، دکان پکوڑوں کی، بات کروڑوں کی۔
ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے کا راگ الاپنے والوں کو پتہ بھی ہے کہ کیا ہوگا ملک کے ساتھ اگر آپ لوگوں کے اس بیان سے خوف اور بے چینی کی وجہ سے ملک سے بچا کچا سرمایہ اور کاروبار بھی بھاگ گیا تو۔ پتہ بھی ہے کہ کیا حالات ہونگے ملک کے اگر یہ واقعی ہوگیا۔ آپ لوگ اپنے لیڈر کی وجہ سے دعائیں کر رہے ہو کہ ملک دیوالیہ ہو جائے تو اس کی راہ ہموار ہو، لیکن پتہ بھی ہے آپ کو کہ کس کو نقصان ہوگا؟
نواز شریف اور زرداری کو یا معمولی لوگ معمولی آمدن رکھنے والے؟ آپ کے لیڈر اپنی دشمنی کی خاطر پورے ملک کو دیوالیہ کرنا چاہتے ہیں۔ آڈیو لیک بھی آ چکی ہے جس میں شوکت ترین کے پی اور پنجاب کے وزرائے خزانہ سے بات کر رہے ہیں کہ کیسے آئی ایم ایف کو ایک بیان دے کر ملک کو ملنے والی رقم ملتوی یا مؤخر کی جائے۔ یہ ہے آپ لوگوں کی اصلیت۔ ہم نہیں، تو ملک دیوالیہ ہو جائے۔ سبحان اللہ، پھر ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ کیسے سوتے ہیں رات کو آپ۔
کئی مہینوں پہلے عمران خان صاحب کی بھی وفاق میں حکومت تھی، اور ابھی بھی چار صوبوں میں ہے۔ لیکن میرے سمیت ان کے کسی مخالفین سے آپ نے یہ تب سنا کہ کیا پاکستان، ملک دیوالیہ ہوگیا، تباہ ہوگیا پاکستان؟ نہیں۔ ان کی مخالفت کی گئی بس۔ کوئی اتنا بے شرم نہیں کہ اپنے مخالف کو ہٹانے کے لیے کہے کہ پورا ملک برباد ہو۔ آج بھی چار صوبوں میں عمران خان کی حکومت ہے۔ لیکن ہم نہیں کہہ رہے کہ خدانخواستہ کے پی اور پنجاب دیوالیہ ہو جائیں، گئے یہ سارے صوبے۔ برباد ہو گئے۔ ایسی ذہنیت صرف عمران خان اور ان کے ساتھی ہی رکھ سکتے ہیں۔ ہم نہیں۔
ویسے ملک دیوالیہ نہیں ہوگا، انشاءاللہ۔ لیکن جو خوف اور بے یقینی پھیلائی جا رہی ہے اس سے ہوگیا تو نقصان عمران خان کے مخالفین کا نہیں، عام بندے کا ہوگا۔ لیکن یہ پی ٹی آئی والے نہیں دیکھیں گے، نہ وہ لوگ جو عمران خان کی ہمایت کرتے ہیں۔ وہ بس عشق میں گرفتار ہیں۔ بجائے ملک کے لیے دعائیں کرنے کے، وہ بددعا دے رہے ہیں۔ شرم آنی چاہیے کہ بلوم برگ اور دوسرے ادارے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکان کو صرف 5 یا 10 فیصد ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن تبدیلی کے خواہشمند چاہتے ہیں ملک ضرور دیوالیہ ہو تاکہ ہماری دکان چمکے۔
اب دو صوبے جہاں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں ہیں، وہاں حکومتیں اس لیے نہیں استعمال ہو رہی ہیں کہ لوگوں کی خدمت کی جائے، بلکہ کہا جا رہا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ تو جیسے ایوان نے بورس کی بکری مروائی، عمران خان چاہتے ہیں کہ اگر پی ڈی ایم کی وفاق کی حکومت ہے تو میں اپنی بھی حکومت ختم کر دیتا ہوں تاکہ پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت ختم ہو اور عام انتخابات ہو جائیں۔
عوام کا درد ہوتا تو اپنی سیاست چھوڑ کر اور بادشاہوں کے محل جیسے اپنے گھر کو چھوڑ کر وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کچھ کرتے۔ دو صوبائی حکومتیں ہونا کوئی معمولی بات نہیں، ان کے وسائل بہترین اور عمدہ نمونے سیلاب متاثرین کے لیے وقف ہونے چاہیے تھے۔ لیکن یہاں نواب صاحب کو بس احتجاج، دھرنے اور جلسوں میں عوامی پیسہ پانی کی طرح بہانا ہے۔
بس ٹیلی تھون کر دیا ٹی وی پر اپنی ہی دکان چمکانے کے لیے۔ ٹیلی تھون کی وڈیوز دیکھیں، سیلاب زدگان کے بارے میں کم عمران خان کی جی حضوری پر زیادہ وقت لگ رہا ہے۔ اعداد بھی غلط بتائے کہ جی ہم نے اتنے جمع کر لیے۔ بعد میں پتہ چلا بہت ساروں نے محض ٹی وی پر آ کر غلط بیانی کی، ظاہر ہے جیسا لیڈر ویسے اس کے چاہنے والے۔
ابھی بھی ملک کا کافی حصہ برباد ہے سیلاب سے، لوگوں کی حالت وہاں جو ہے اسے دیکھ کر دل لرز جاتا ہے۔ لیکن بے فکر رہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اسمبلی تحلیل کرنے سے اور انتخابات ہو جانے سے خود بخود وہاں سے پانی بھی نکل جائے گا اور متاثرین کو سب کچھ مل جائے گا۔ یہ ہے ذہنیت تبدیلی کے خواہاں کی۔ حکومت ہے تو لوگوں کی مدد نہیں کرنی، لیکن اسمبلی تحلیل کرنی ہے تاکہ ہمیں واپس مکمل اقتدار مل سکے۔
اقتدار کا بھوکا شخص کبھی اقتدار عوام کی خاطر نہیں چاہتا۔ یہ پہلی بار ملک کی تاریخ میں ہو رہا ہے کہ جس بندے کے پاس ایک نہیں، دو نہیں، چار چار صوبائی حکومتیں میسر ہیں، وہ کہتا ہے ساری صوبائی حکومتیں جائیں بھاڑ میں، مجھے وفاقی حکومت دو۔ شاید ہی کوئی پاکستان کی تاریخ میں اس قدر بھوکا ثابت ہوا ہوگا اقتدار کے لیے۔