Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Ishara He Kafi Hai

Ishara He Kafi Hai

اشارہ ہی کافی ہے

عمران خان کے فوج مخالف بیانیے ایک جانب رکھیے اور ان کے کارکنوں نے جو کچھ کیا پچھلے چند دنوں میں اس کو ایک جانب رکھیے اور پھر اس انٹرویو کو دیکھیے جوآج سے گیارہ سال پہلے نشر ہوا تھا۔ میں ایک چھوٹا سا حصہ آج سے گیارہ سال پرانے انٹرویو کا آپ کو سنانے اور پڑھانے جارہا ہوں۔ غور سے پڑھیے یا سنیے گا۔

"فوج کے ہاتھ میں حالات ہیں۔ لیکن ذمے دار کون ہیں؟ یہ (یعنی حکمران) ہیں"۔ بیچ میں انٹرویو لینے والی خاتون ٹوکتی ہیں۔ لیکن جس سے انٹرویو لیا جارہا ہے، وہ کہتا ہے: "نہیں!میر ی بات سنیں نا"۔ خاتون بولتی ہیں: "جی بولیے"۔ بندہ کہتا ہے: "اگر، مجھے یہ بتائیں، کہ وزیر اعظم اور صدر وہاں (یعنی اسلام آباد) بیٹھے ہیں۔۔ محلوں میں بیٹھے ہیں۔۔ تو پھر کیوں نہیں ذمے داری لیتے؟ ان کی ذمے داری ہے"۔

یاد رہے انٹرویو میں بلوچستان پر گفتگو ہورہی تھی۔

انٹرویو لینے والی خاتون پوچھتی ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ فوج کو بلوچستان سے باہر آجانا چاہیے؟ جس پر موصوف انٹرویو دینے والے کہتے ہیں کہ فوج تو وہاں اس لیے ہے کیونکہ۔۔ اب موصوف کے اپنے الفاظ ملاحظہ کیجیے۔۔ کہتے ہیں: "ان کو (یعنی سیاسی حکمرانوں کو) تو سیروں سے فرصت نہیں ملتی"۔ انٹرویو لینے والی خاتون کہتی ہے: "آپ آجائیں گے تو سارے بھاگ جائیں گے پیچھے؟" اس پر موصوف کہتے ہیں کہ اگر ہماری حکومت آئی تو۔۔ اب یہ موصوف کے الفاظ ہیں، غور سے سنیے یا پڑھیے۔۔ " میں آپ کے سامنے یہ کبھی بہانہ پیش نہیں کروں گا کہ میں دیکھیں جی بے بس ہوں فو ج کچھ کرنے نہیں دے رہی۔ یہ تو کوئی بہانہ نہیں۔ اگر فوج نہیں کرنے دے رہی میں نااہل ہوں۔ اس کا مطلب میں وزیر اعظم بننے کا مستحق نہیں۔ اگر کوئی میرا راستہ روکے گا، میں کچھ نہیں کرسکتا، میں عوام کے پاس واپس جاؤں گا"۔

آپ ذرا اندازہ لگائیں یہ کس شخص کے کلمات ہیں؟ یہ اس شخص کے کلمات ہیں جو آج چوبیس گھنٹے یہ کہتا ہے کہ مجھے فوج نے حکومت نہیں کرنے دی۔ مجھے فوج نے اقتدار سے بے دخل کیا۔ فوج نے مجھے کام نہیں کرنے دیا۔

یہ آج سے گیارہ سال پرانا انٹرویو ہے۔ خاتون صحافی مہر بخاری ہیں۔ اس وقت وہ "دنیا نیوز" چینل پر "کروسفائر" نامی پروگرام کرتی تھیں۔ اور جس بندے کا انہوں نے انٹرویو لیا وہ عمران خان ہے۔ یاد رہے منافق کی ایک زبان نہیں ہوتی۔ وہ جو کہتا ہے اس کا الٹ کرتا ہے۔ میں نے جو انٹرویو سے عمران کان کے الفاظ نقل کیے ہیں یا آپ کو سنائیں ہیں وہ آپ خود یوٹوب پر جاکر دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے سوائے انگریزی لفظوں کو اردو میں بدلنے کے کچھ بھی اپنی طرف سے شامل نہیں کیا۔ یہ انٹرویو 7 جون، 2012ء کو نشر ہوا تھا۔ یہ انٹرویوآج بھی "دنیا نیوز"کے یوٹیوب چینل پر موجود ہے۔ جائیں اور دیکھیں کیسے ایک منافق کی اپنے ہی لفظوں سے نشاندہی ہورہی ہے۔

اس وقت یہ بیا ن کہ فوج غلط کر رہی ہے تو اس کا مطلب آپ وزیر اعظم بننے کے اہل نہیں۔ اور آج کا سارا بیانیہ ان کا یہ ہے کہ میرے پاس اختیار نہیں تھا، میرے ہاتھوں میں کچھ تھا نہیں، باجوہ صاحب سب کچھ کر رہے تھے۔ موصوف کو جب تک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل نہ کیا گیا، وہ کبھی اقتدار سے خود علیحدہ ہوکر عوام میں نہیں گئے۔ جب تک اقتدار میسر تھا، اس کے بھر پور مزے لیے اور ان کا قصور بھی نہیں۔ ان کے جاہل پیروکار ان کی منافقت اور جھوٹ کو سمجھ ہی نہیں رہے۔ جب لوگ ہی ان کے پیچھے جاہل ہیں، تو ان کا قصور مکمل نہیں۔ ہر اس جاہل اندھے کا بھی قصور ہے جو اس فرعون کے تکبر کو مزید طول دے رہا ہے اس کی حمایت کرکے۔

اب عمران خان اپنے ہی لفظوں میں ناہل ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ جھوٹے بھی ہیں۔ اقتدار سے پہلے انہوں نے کہا کہ میں اقتدار چھوڑ دوں گا اگر کام نہ کرنے دیا تو، لیکن جب تک اقتدار میں تھے، بقول ان کے، ان کے پاس اختیارات نہیں تھے۔ سب کچھ جنرل باجوہ کر رہے تھے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی ہی بات پر عمل کیوں نہ کیا؟ واپس عوام میں کیوں نہیں گئے؟ بلکہ انہوں نے تو عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔ اقتدار سے جب تک انہیں خود بے دخل نہ کیا گیا، وہ نہ اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار تھے نہ اپنے مخالفین کی جیت دیکھنے کے لیے۔

یہ ان کا پرانا بیان سامنے رکھیں اور پھر دیکھیں ابھی پچھلے چند دنوں میں ان کے کارکنان نے فوجی عمارات اور یاد گارِ شہداء کے ساتھ کیا کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مخالفین کو سیلین مافیا کہتے ہیں، چور اور ڈاکو کہتے ہیں۔ جب ان کے مخالفین گرفتار ہوئے، کیا تب چوری اور ڈاکے اور سسلین مافیا کا منظر ہم نے دیکھا یا آج جب ان کے اپنے لیڈر جیل گئے۔۔ وہ بھی چند لمحوں کے لیے؟ زرداری اور نواز شریف کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں، ان کے کارکنان نے یہ سب کیوں نہ کیا جب وہ گرفتار ہوئے اور وہ بھی کئی دنوں کے لیے؟ انہوں نے تو یہ تب نہ کیا جب ان کی خواتین رہنماؤں کو گرفتار کیا جارہا تھا۔

دوسرا موجودہ حکومت بھی کسی سے کم نہیں۔ میرا موجودہ حکومت سے سوال ہے۔ بھئی!آپ عمارات کو، ایمبولینسس کو، اسکولوں کو، ریڈیو پاکستان کو، فوجی عمارات کو، یاد گار شہداء کو بچا نہ سکے تو انٹرنیٹ بند کرنے کی کیا تک ہے؟ ابھی جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں، انٹرنیٹ سست روی کا شکار ہے۔ مکمل بحال نہیں ہوا۔ آپ کا جو کام ہے، ریاستی اور نجی جان اور مال کا تحفظ، وہ آپ کر نہ پائے۔ چند جاہلین اپنے لیڈر کے عشق میں اپنے ہی ملک پر دشمنوں کی طرح برس پڑے، آپ خاموش تماشائی بنے رہے، تو پھر کیا فائدہ انٹرنیٹ بند کرنے کا۔ کئی لوگوں کا آج روزگار انٹرنیٹ سے وابستہ ہے۔ ملک کا اور قوم کا اربوں کا نقصان ہورہا ہے۔

جن جن لوگوں نے ان چند دنوں میں اپنے لیڈر کے عشق میں اپنے ہی ملک کی املاک کو تباہ کیا، وہ ذرا سوچیں کہ وہ کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ان کے لیے ملک جل جائے کوئی مسئلہ نہیں۔ بس ان کا لیڈر محفوظ ہو۔ جب لیڈر آپ کے ملک اور مال اور جان سے زیادہ عزیز ہوچکا ہے، تو یاد رکھیے آپ کی آخرت اور دنیا کا کام تمام ہوچکا۔ ایمبولینسس تک کو نہ بخشا گیا۔ سرکاری عمارات، جو ہمارے ہی ٹیکس کے پیسوں سے بنتی ہیں، ان کو نقصان پہنچایا گیا۔

یہ بھی چھوڑیں۔ "جناح ہاؤس"! یار بندہ کتنا بھی اپنے لیڈر کے عشق میں مبتلا ہو، اسے اپنے ملک تو پہلے رکھنا چاہیے۔ جس بندے نے یہ ملک بنایا، اس کے نام سے منسوب عمارت کو جلا دیا گیا۔ یاد رہے یہ عمارت بانی پاکستان کو تحفے کے طور پر ملی تھی۔ وہ عمران خان کی طرح نہیں تھے کہ اس تحفے کو اپنی جیب میں ڈال کر، لوگوں کو مدینہ کی ریاست اور حکومت بغیر مالی فوائد کا درس دے کر، یہ کہتے کہ "میرا تحفہ میری مرضی"۔ انہوں نے تو اپنی کئی جائیدادیں۔۔ بشمول اپنے ساتھی لیاقت علی خان کے۔۔ بھارت میں چھوڑ دیں اس ملک کے لیے۔ اور یہاں آپ لوگ ایک ایسے شخص کے لیے ملک اور قائد کی نشانی جلارہے ہیں جو اربوں کی جائیداد بناتا ہے۔ حکومت میں آکر اپنی غیرقانونی رہائش گاہ کو قانونی بناتا ہے۔ ساتھ یہ درس دیتا ہے کہ میں اقتدار اپنے لیے نہیں چاہتا۔

ان بے شرم لوگوں کو برما، چین، بھارت، کشمیر اور فلسطین کا حال دیکھنا چاہیے۔ جس قائد کے نام سے منسوب عمارت آپ نے جلائی، وہ نہ محنت کرتے تو آج آپ لوگوں کا وہی حال ہوتا جو فلسطین، برما، چین، کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کا ہے۔

لیکن ان بے شرم لوگوں کو کیا سمجھانا۔ انہوں نے تو مسجد تک شہید کردی۔ جی ہاں!مسجد تک شہید ہوئی اس ساری کاروائی میں۔ استغفر اللہ!کہاں ہیں عاشق رسول ﷺاور اسلام کے علمبردار؟ پہلے تو معصوم لوگوں کو دین کا جواز بنا کر نشانہ بنایا جاتا تھا۔ یہاں ایک شخص "امر بالمعروف" جیسے مقدس فلسفے کو استعمال کرکے "امریکی سازش" کا ڈرامہ کرتا ہے اور ساتھ امریکی لوبنگ فرمز کو مہنگے داموں خریدتا ہے تاکہ اس کا تصور امریکہ میں مثبت طور پر ہو۔ خیر، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان اب پاکستان اور دین اسلام اور ہر چیز جس پر حملہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے، ان سے بالاتر ہوگیا ہے۔

لہذاآج کی نسل فوج کو گالیاں دے رہی ہے، اگلی نسل اس ملک کے نظریے اور دین کو گالیاں دے گی۔ یہ میری بات لکھ لیں آج۔ آج کینٹ کے قریب نوجوان لڑکے لڑکیاں فوجیوں کو گالیاں دے رہے ہیں، اگلی نسل مسجد اور بانی پاکستان کی قبر کے قریب یہ سارا ہنگامہ کرے گی۔ اگر۔۔ اگر ہم نے اس فتنے کی اصلیت نہ جانی اور اس کے خلاف قانونی اور اخلاقی کاروائی نہیں کی۔ (فی الحال تو اس کے دور دور تک کوئی آثار ظاہر نہیں ہوتے۔ الٹا موصوف اگلے وزیر اعظم بنیں گے)۔

یہ سب کس کے لیے ہورہاہے؟ یہ سب جلاؤ گھیراؤ۔ ایک ناجائز اولاد رکھنے والے کے لیے؟ جو اپنی ہی اولاد کو تسلیم نہیں کرتا، اس کے لیے؟ جو چندے کے پیسوں کو رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں لگا کر، نقصان کرتا ہے چندے کے پیسوں کا؟ جو کبھی ایک بیان دیتا ہے تو کبھی دوسرا؟ جو کبھی ایک بات پر قائم نہیں رہتا؟ جو گالیاں دیتا ہے، الزام بغیر ثبوت کے لگاتا ہے؟ ضدی بچے کی طرح اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا ہے؟ جب اقتدار میں نہ ہو تو ملک میں فساد اور عدم استحکام کی فضا ہموار کرتا ہے؟ جو جب حکومت میں نہ ہو تو مخالفین کو حکومت سے بے دخل کرنے کےلیے ہر آئے دن سڑکوں کی راہ لیتا ہے، جبکہ خود جب اقتدار میں ہو تو سارے مخالفین کو قید خانے ڈال دیتا ہے۔۔ اور وہ بھی چند دنوں کے لیے نہیں، کئی سالوں کے لیے۔

اگر ایسا بندہ ہمارا مقبول لیڈر ہے اور نجات دہندہ، تو پھر ہمیں انا اللہ پڑھ ہی لینا چاہیے اپنی اخلاقیات پر۔

ابھی میڈیا میں چیف جسٹس کا بیان گردش کر رہا ہے کہ انہوں نے گرفتاری کے بعد عمران خان کو جب دیکھا تو کہا ہمیں آپ کا دیدار کرکے خوشی ہوئی۔ میں نے جب یہ سنا تو مجھے حضرت علیؑ کا ایک واقعہ ذہن میں آگیا جو میں نے مولانا مودودی کی کتاب "خلافت و ملوکیت" میں پڑھا تھا۔ مولانا مودودی کی کتاب کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔۔ مولانا نے(ص96 میں) لکھا:

"ابن خلکان کی روایت ہے کہ ایک مقدمے میں حضرت علیؓ اور ایک ذمی فریقین کی حیثیت سے قاضی شریح کی عدالت میں حاضر ہوئے"۔

اب اس سے پہلے کہ میں مزید آپ کو اقتباس سناؤں، یہ یاد رہے کہ ذمی اس غیر مسلم کو کہتے ہیں جو جزیہ ادا کرکے اسلامی ریاست کی امان حاصل کرتا ہے۔ وہ مسلم نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود۔۔ خیر، آپ اقتباس ملاحظہ کریں، سب واضح ہوجائے گا۔ آگے سنیے:

"قاضی نے اٹھ کر حضرت علیؓ کا استقبال کیا۔ اس پر انہوں نے فرمایا: یہ تمہاری پہلی بے انصافی ہے"۔

عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔

آخر میں قرآن پاک کی ایک آیت یہاں درج کرنا چاہوں گا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: "اور لوگوں میں کوئی تو ایسا ہے کہ آپ کو اس کی بات دنیا کی زندگی میں بہت بھلی لگتی ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالوہے۔ اور جب وہ پلٹتا ہےتو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے کھیتوں اور نسل کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا"۔ (سورۃ البقرۃ، آیت 204 تا 205)

اگر آپ کو اس آیت کی تشریح چاہیے تو پی ٹی وی پر حملے کو ملاحظہ کرلیجیے۔ پارلیمان پر حملے کو ملاحظہ کرلیجیے۔ پچھلے سال 25 مئی کو درخت نذر آتش کیے گئے، انہیں ملاحظہ کیجیے۔ پھر ابھی جو چند دنوں پہلے ہوا اسے ملاحظہ کرلیجیے۔ آپ کو سب سمجھ آجائے گا۔

پھر سے کہوں گا: عقل مند کے لیے اشارے ہی کافی ہوتے ہیں۔

Check Also

Dr. Shoaib Nigrami

By Anwar Ahmad