Imran Khan Ka Anjam Kya?
عمران خان کا انجام کیا؟
دوستو، ملک کی موجودہ صورتحال ہر محب وطن کو دکھی کرتی ہے۔ ہم تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں، کیونکہ اقتدار اور سڑکیں جہلاء کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔
کتنا بے غیرت ہو گا وہ شخص جو اپنے مخالف کو ہرانے کے لیے کسی معصوم کو استعمال کرے۔ مثلاً، ایک شخص کو کوئی چماٹ مارتا ہے، اور مارنے والا کیونکہ تگڑا ہے، لہٰذا جس نے چماٹ کھائی ہے وہ کسی چھوٹے بچے کو جا کر تھپڑ رسید کر دیتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہ چھوٹا بچہ اس سے لڑ نہیں سکتا۔ ایسے شخص کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ جس کا تھوڑا بھی دماغ چلتا ہو، وہ اس شخص کو برا کہے گا اور اس سے دور بھاگے گا۔ لیکن ہماری قوم کے شعور کا اندازہ لگائیے آپ، ایسے شخص ہمارے مقبول رہنماء ہیں۔
کیا کوئی شخص اپنے گھر سے مخلص ہو سکتا ہے اگر وہ گھر کی بجلی، گیس، پانی وغیرہ کی رسائی کو کاٹنے کی کوشش کرے، جو منصوبہ بنائے کہ گھر دیوالیہ ہو جائے، صرف اس لیے کہ وہ گھر کا سربراہ نہیں؟ بھلے وہ خود خوشحال ہے، لیکن کیونکہ سربراہ نہیں، لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ گھر کے دروازے بند ہو جائیں، بجلی، پانی اور گیس کی رسائی کٹ جائے اور گھر کا معاشی نظام بیٹھ جائے۔
شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایک شخص جو لینڈ کروزر گاڑی میں گھومتا ہے، محافظوں کے جتھوں کے ساتھ، جو 1000 کنال کی زمین کا مالک ہے، جو قیمتی ملکی تحائف بیچ کھاتا ہے، اس پر حملہ ہوتا ہے اور وہ مزے سے ہسپتال میں اور اپنے گھر میں بڑے سکون سے مقیم ہے، لیکن عام عوام کے لیے راستے بند کیے جا رہے ہیں۔
انہیں کہا جا رہا ہے کہ آپ کے بچوں کو حق نہیں کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے باہر نکلیں، آپ کو تکلیف اٹھانی پڑے گی، بھلے کوئی عزیز بیمار ہے اسے ہسپتال نہیں لے جا سکتے، کاروبار نہیں کر سکتے، کیونکہ ہمارے لیڈر کو زخمی کیا گیا ہے۔ یہ جہلاء، جو یہ سب کر رہے ہیں، کہتے ہیں ہم مدینہ کی ریاست بنائیں گے۔ یہ لوگ مغرب کی خوشحالی کے درس دن رات دیتے ہیں۔
آپ کو پتہ ہے کہ اسلام کب تیزی سے پھیلا؟
میرے پاس ابن ہشام کی لکھی ہوئی سیرت نبی ﷺ کا اردو ترجمہ موجود ہے۔ اس کا ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور پھر آپ خود ملاحظہ کریں کہ اسلام کس حالت میں تیزی سے پھیلا۔ اس اقتباس میں گفتگو ہو رہی ہے کہ صلح حدیبیہ سے اسلام کو فتح کس طرح ہوئی جبکہ صلح کے لیے جو شرائط رکھی گئیں وہ بالکل مسلمانوں کے خلاف تھیں۔ غور سے سنئیے گا کہ سیرت ابن ہشام میں کیا لکھا ہے، ابن ہشام لکھتے ہیں۔
"زہری کہتے ہیں حدیبیہ کی صلاح سے بڑھ کر اس سے پہلے اسلام میں کوئی فتح نہیں ہوئی۔ کیونکہ جنگ موقوف ہو گئی تھی اور لوگ گفتگو اور مباحثہ میں مشغول ہوئے تھے۔ پس جس میں کچھ بھی عقل کا حصہ تھا وہ اسلام قبول کر لیتا تھا۔ زہری کے اس قول کی دلیل یہ بات ہے کہ جب حضورؐ حدیبیہ میں آئے ہیں تو آپ کے ساتھ چودہ سو آدمی تھے جیسا کہ جابر نے بیان کیا ہے اور اس کے دو ہی برس کے بعد جب آپ فتح مکہ کے واسطے آئے ہیں تب آپ کے ساتھ دس ہزار آدمی تھے۔ " (ص 382، سیرت النبی ﷺ (کامل) ابن ہشام، ابن ہشام، جلد دوم، مترجمین: مولوی قطب الدین احمد صاحب محمودی اور سید یٰسین علی حسنی نظامی دہلوی، مکتب رحمانیہ، لاہور)
یعنی اسلام دھرنوں اور احتجاج اور خانہ جنگی کی صورت حال سے دوچار ہو کر نہیں تیزی سے پھیلا تھا۔ آئے دن مسلمانوں نے شہروں کو بند کر کے، معمولات زندگی منجمد کر کے اپنے دین کو آگے نہیں پھیلایا۔ بلکہ امن کی صورت حال میں، دلیل اور گفت و شنید کے ذریعے لوگوں کو اپنے دین کے قریب لایا گیا اور لوگ دین اسلام میں تیزی سے داخل ہوتے رہے۔ جو لوگ مدینہ کی ریاست توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی حکمت عملی کے تحت بنانا چاہتے ہیں وہ نہایت ہی غلیظ اور جاہل ہیں۔ جنہیں دین کا کچھ علم نہیں، ماسوائے اپنے بیوقوف اور خود غرض لیڈر کی باتوں کے انہوں نے کبھی تحقیق نہیں کی، کبھی غور و فکر سےکام نہیں لیا۔
آئیے ہم مغرب کے ایک بہت ہی اہم اور بڑے ملک، ایک سپر پاور، امریکہ کی تاریخ اور بنیاد پر کچھ گفتگو کرتے ہیں۔
امریکہ کے صدر دوم، جون ایڈمس کے زمانے میں، جب امریکہ ایک نیا نیا ملک تھا، بہت خون بہا کر انگلستان سے آزادی حاصل کی گئی تھی، اس وقت فرانس اور امریکہ کے معاملات بری طرح بگڑ گئے تھے۔ حتٰی کہ بات جنگ تک بھی پہنچ گئی تھی۔ اس وقت امریکی عوام کے جذبات بھی جنگ کی طرف مائل تھے۔ لیکن جان ایڈمس نے مقبول ہونے کے بجائے، لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے کے بجائے، عقل سے کام لیا۔ انہیں پتہ تھا کہ امریکہ فرانس کے مقابلے اس وقت ایک غریب ملک تھا۔
اس نئی اور کمزور ریاست کا وجود امن پر انحصار رکھتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے فرانس کے ساتھ امن کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اپنے وزراء اور مشیروں کی نہ مانتے ہوئے انہوں نے صلح کے لیے اپنے ایلچی فرانس بھیجے۔ ان کی کوششیں رنگ لائیں اور فرانس کے ساتھ امریکہ کی صلح ہو گئی۔ لیکن اس کا نتیجہ جان ایڈمس کے لیے بہت منفی ثابت ہوا۔ کیونکہ جب تک خبر امریکہ پہنچی، تب تک انتخابات ہو گئے تھے۔ جان ایڈمس نے بری طرح شکست کھائی۔ (ص552، 556، جان ایڈمس، ڈیوڈ مککلو، سائمن اینڈ شوسٹر، نیو یارک، ڈرامہ سیریز کی چھٹویں قسط)
کیا انہوں نے بھی بیرونی سازش کا ڈرامہ رچایا؟ کیا انہوں نے بھی سڑکیں بند کیں؟ کیا انہوں نے کہا میں نہیں تو ملک کو آگ لگا دو، ایٹم بم گرا دو ملک پر۔ نہیں۔ ایک امریکی مصنف، جنہوں نے ان کی سوانح لکھی، جس پر ایک ڈرامہ سیریز بھی بن چکی ہے، لکھتے ہیں کہ
"However crushed, disappointed, saddened, however difficult it was for him to bear up, he expressed no bitterness or envy, and no anger. Nor was anyone to feel sorry for him "
یعنی انہیں دکھ تو بہت تھا کہ ان کی خدمات کو نظر انداز کیا گیا، لیکن انہوں نے کرواہٹ کا مظاہرہ نہ کیا، نہ ہی دشمنی کا اور غصے کا۔ نہ ہی انہوں نے کسی کو اجازت دی کہ ان کے لیے دکھی ہو۔
آگے مصنف ان کا ایک جملہ نقل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے جانشین (جس نے انہیں ہرایا) کو لکھا:
".Be not concerned about me, I feel my shoulders relieved from the burden "
کہ میرے بارے میں پریشان مت ہو۔ میرے کندھوں سے تو بوجھ اتر گیا۔ (ص556، جان ایڈمس، ڈیوڈ مککلو، سائمن اینڈ شوسٹر، نیو یارک؛ڈرامہ سیریز کی چھٹویں قسط)
لیکن کیا کریں، پاکستان میں ایک شخص کو اقتدار میں لانے کے لیے بد امنی اور خانہ جنگی ضروری ہے۔ وہ شخص جب وزیراعظم بنے گا تو ملک کی تقدیر سنورے گی۔ وہ الگ بات ہے کہ سارے شمالی صوبوں میں اس کی حکومت ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد تو صوبوں کو زیادہ اختیار مل گئے ہیں۔ پولیس، ہسپتال، تعلیم، آب پاشی وغیرہ جیسے اہم امور صوبوں کے اختیار میں ہیں۔
لیکن آپ انتہا دیکھیں، ایک طرف کہتے ہیں ہم پاکستان بدلیں گے اور دوسری طرف اپنی حکومت کے زیر نگرانی ہسپتالوں پر انہیں بھروسہ نہیں۔ کئی میل سفر کر کے وہ اپنی بنائے ہوئے نجی ہسپتال میں علاج کے لیے جاتے ہیں۔ ان کا کوئی بھی فرزند تعلیم کے لیے پاکستان نہیں آیا۔ جبکہ ایک صوبے میں ان کی حکومت کو 10 سال ہونے جا رہے ہیں اور باقی صوبوں میں قریب 5 سال۔
ان کے ہی زیر حکمرانی صوبے میں بڑی بے دردی سے معصوم بچوں کو اسکول میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا عین اس وقت جب وہ اسلام آباد میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ دھرنا دے رہے تھے۔ بد عنوانی کے کارنامے ان کے بھی مشہور ہیں بی آر ٹی، توشہ خانہ، بیرونی فنڈنگ، وغیرہ وغیرہ۔ ہر آئے دن کبھی آئی جی پنجاب یا چیف سیکرٹری کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا استعفٰی پکڑا دیتے ہیں۔
کے پی میں اساتذہ کے احتجاج پر پولیس تشدد پر اتر آتی ہے لیکن موصوف کو خونی لانگ مارچ کا لائسنس ملنا چاہیے۔ کارکردگی نہیں دیکھانی، بس دھرنے اور احتجاج میں وقت ضائع کرنا ہے۔ شمالی سارے صوبے موصوف کے زیر نگرانی ہیں، لیکن مجال ہے کہ وقت نکال کر عوام کی خدمت کریں۔ ساری صوبائی انتظامیہ کو اپنی حفاظت اور دھرنوں اور احتجاجوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ (اور اس سب کے لیے آپ اور ہم اپنی جیب سے پیسے خرچ کر رہے ہیں۔)
یہ ہے وہ شخص جو تبدیلی لائے گا اور پاکستان کو عظیم قوم بنائے گا۔
موصوف بہتان اور الزام تراشی کے ماہر ہیں۔ بغیر تصدیق اور تحقیق کے جو منہ میں آئے بول دیتے ہیں بغیر یہ سوچے کہ بہتان لگانے کی اسلام میں کیا سزا ہے، کتنا بڑا گناہ ہے یہ۔ 35 پنکچر کا جھوٹ بول کر پھر اسے سیاسی بیان کہہ چکے ہیں، جبکہ معاملہ بڑا سنگین تھا، انہوں نے ایک شخص پر کیچڑ اچھالی بغیر کسی ثبوت کے۔
جاپان اور جرمنی کی سرحدوں کو ساتھ ملا دیا ایک بار موصوف نے اور کہا کہ دونوں نے جنگ لڑی، حالانکہ دونوں ممالک نہ مشترک سرحد رکھتے ہیں نہ نسل نہ کچھ۔ اور جہاں تک جنگ کی بات ہے تو دونوں ممالک اتحادی تھے دوسری جنگ عظیم میں۔ لیکن موصوف اتنے ہوشیار ہیں کہ پوچھیں ہی نا۔
موصوف کی معتدد آڈیو لیکس نے ان کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ انہوں نے سفارتی سائفر کے ساتھ کھیلا ملک کی سالمیت کو داؤ پہ لگا کر، اپنے مرضی کے منٹس بنوائے، ووٹ خریدے جبکہ لوگوں کے سامنے ووٹ خریدنے کو شرک کہہ چکے ہیں، کہا کہ صحیح غلط کی فکر میں نہ الجھیں، اور تو اور موصوف کو یہ تک کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے ذہن خالی ہیں اس میں اپنے مخالفوں کے لیے نفرت شامل کریں، انہیں میر جعفر اور صادق کا لقب دیں۔
ایک عورت جو ان کے پاس انصاف کی فریاد لے کر آئی، اس عورت کو انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں ایک ماہ تک قید میں رکھا اور اس کی ایک وڈیو سے چیئرمین نیب کو زیر دباؤ لایا گیا۔ ایک صحافی جس نے ان کی چوری پکڑی اس کی 70 سالہ والدہ کو نہ بخشا گیا، اسے بھی دھمکی دی گئی۔ اس صحافی کو روزگار سے محروم کیا گیا۔ اس کے خلاف غنڈے استعمال کیے گئے تاکہ وہ موصوف کی تحائف چوری کو عیاں کرنا بند کر دے۔
لیکن سچ سامنے آیا۔ ان کے اقتدار سے جانے کے بعد پتہ چلا کہ موصوف نے ہر ملکی تحائف کو بیچ کھایا۔ نہایت ہی کم قیمت پر سارے قیمتی تحائف خریدے گئے اور بیچے گئے اور قیمت کا تعین بھی خود کیا گیا۔ خود رقم ادا نہ کی اور کچھ کے لیے تو رقم بھی نہ دی۔ کروڑوں کے تحائف تو کھائے ہی کھائے لیکن چھوٹے تحائف جیسے ڈنر سیٹ وغیرہ بھی نہ چھوڑے گئے۔ اپنے یہ اثاثے بھی پوشیدہ رکھے گئے اور ساتھ ساتھ موصوف لوگوں کو کہتے رہے کہ اپنے اثاثے ظاہر کریں اور حضرت عمرؓ کا درس دیتے رہے کہ کوئی بھی ان سے ان کے کپڑوں پر سوال کر سکتا تھا۔ جبکہ ان کی توشہ خانہ چوری عیاں ہوئی تو موصوف کہنے لگے کہ "میرا تحفہ میری مرضی"۔
اب موصوف چاہتے ہیں کہ انہوں نے جن لوگوں پر الزام لگائے ہیں انہیں ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے۔ ثبوت مانگے جائیں تو کہتے ہیں کہ میں حکومت میں تھا میرے تعلقات ہیں لوگوں سے۔ بھائی یہ کیا ثبوت ہوا؟ تعلقات بہت سے لوگوں کے ہیں اس ملک میں اعلیٰ لوگوں سے، کیا وہ منہ اٹھا کر کسی پر الزام لگانا شروع کر دیں؟ بیرونِ ملک سے بہت سے صحافیوں نے موصوف سے یہ سوال پوچھا تو بات کو گھماتے رہے لیکن ثبوت پیش نہ کر سکے۔ موصوف بہتان لگاتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے اور ثبوت کے۔
ساری غلطی ان جاہل اور بیوقوف لوگوں کی ہے جو اس شخص کو مقبول بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہی بندہ ایک وقت میں اکیلا ٹاک شوز میں آتا تھا، کیونکہ موصوف کی جماعت میں کوئی تھا نہیں ان کی نمائندگی کرنے والا۔ جو آج ان کے ساتھ ہیں، انہیں کسی وقت میں ٹانگہ پارٹی کہتے تھے۔ ان کا تمسخر اڑایا جاتا تھا۔ اب انہیں جب اقتدار اور طاقت اور شہرت ایک ساتھ ملے ہیں تو ان کا سارا میک اپ اتر گیا ہے۔ پہلے اتنے معصوم بنے پھرتے تھے۔ اصل چہرہ اب سامنے آیا ہے۔
لیکن فکر نہ کریں۔ اس پاک وطن کو جس نے بھی اپنے مفادات اور انا اور غرض کی خاطر نقصان پہنچایا ہے وہ عبرت کا نشانہ بنا ہے۔ انشاء اللہ عنقریب اس شخص کا بھی یہی حال ہو گا۔ اندرا گاندھی نے پاکستان کو دو ٹکڑے کیا، پڑھیں اس کی موت کیسے ہوئی۔ پڑھیں کہ شیخ مجیب کا قتل کس طرح ہوا۔ دیکھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا کیا انجام ہوا۔ دیکھیں ضیاءالحق کی موت کیسے واقع ہوئی۔ دیکھیں آج مشرف کس حالت میں ہے۔ دیکھیں الطاف حسین کی کیا حالت ہے۔ کاش یہ شخص جانتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو گا۔
لیکن دن رات جو اپنے تعریفی گانے سنتا ہو، اپنی غلطیوں پر جس کی نگا ہ نہ ہو، اپنے چمچے صحافیوں اور حمایتوں کے علاوہ کسی سے ملتا نہ ہو، وہ کبھی تاریخ سے نہیں سیکھتا۔ حتیٰ کہ وہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہی مشرف صاحب، یہی الطاف حسین، یہی ضیا الحق۔ کبھی ان کے نام سے ان کے مخالفین کانپ اٹھتے تھے۔ آج انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ موصوف تو ان شخصیات سے بھی گئے گزرے ہیں، ذرا سوچیں موصوف کا کیا حال ہو گا۔ انشاء اللہ، جو لوگ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا چاہتے ہیں، جو یہاں بدامنی چاہتے ہیں، ان کے عزائم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔
پاکستان زندہ باد۔