Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Ghair Inqilabi Pakistan Ki Kamyabian

Ghair Inqilabi Pakistan Ki Kamyabian

غیر انقلابی پاکستان کی کامیابیاں

میں نے پچھلے سال ایک مضمون لکھا تھا، جس کا عنوان تھا: "بنگلہ دیش کا سہانہ مستقبل"۔ مضمون میں میں نے کئی پیشین گوئیاں پیش کی تھیں۔ مثلاً، میں نے مضمون کا اختتام اس پیرا گراف سے کیا تھا: "آخر میں یہی کہوں گا کہ بنگلہ دیش کی صورتحال دیکھ کر جو لو گ بڑے دکھی ہیں کہ یہاں ایسا انقلاب کیوں نہیں آیا، تو میرا ان سے کہنا ہے، چند مہینے اور سالوں کی بات ہے، انتظار کیجیے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ایسا انقلاب ہمارے ملک میں نہیں آیا اور آنا بھی نہیں چاہیے۔ انشاء اللہ! ملک میں جتنا امن، سکون اور چین ہے اسے برقرار رکھتے ہوئے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ کیجیے۔ ایسا نہ ہو جو ہے وہ بھی گنوا بیٹھیں"۔

اگر پاکستان میں انقلاب آتا تو ہماری حالت دیگر تباہ حال مسلم ممالک جیسی ہوتی، جیسے کہ شام، لبیا، یمن، وغیرہ وغیرہ۔ ہم اس حالت میں نہ ہوتے کہ بھارت کو سبق سکھاتے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں تمام انقلابی لوگوں کا ہدف صرف ایک ادارہ ہے: پاک فوج۔ ملک کی مقبول ترین جماعت کی لڑائی ہی پاک فوج کے ساتھ ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک میں کامیاب انقلاب کا مطلب ہے پاک فوج کی تباہی۔

اس سال مئی کے مہینے میں بھارت نے ہمارے خلاف عسکری کاروائی کی اور بعدازاں اپنی پوری عزت لٹوالی۔ بھارت کے کئی جنگی طیارے پاک فضایہ نے مار گرائے۔ پہلی بار ہوا کہ "رافیل" جیسا جنگی طیارا مار گرایا گیا جو بھارت کی فضایہ کا غرور تھا۔ پاکستان نے 10 مئی کی صبح بھارت پر حملہ کیا اور چند ہی گھنٹوں میں بھارت کی ترجمان نے پاکستان کے ساتھ امن کی خواہش ظاہر کی اور اسی دن دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی طے پاگئی۔ پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن ہوا۔ دس گنا زیادہ بجٹ رکھنے والے حریف کو دھول چاٹنی پڑی۔ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاک فوج کی عدم موجودگی میں ہمارا کیا حال ہوتا۔ اس کا جواب فلسطین جاکر معلوم ہوجاتا ہے۔

اس کے برعکس آپ شام کی حالت دیکھ لیجیے۔ شام ایک ایسا ملک ہے جہاں پچھلے چودہ سال سے خانہ جنگی جاری ہے۔ اس سال بشار الاسد کے اقتدار کی چھٹی ممکن ہوئی، لیکن کچھ ہی عرصے بعد اسرائیل نے بڑی سفاکی کے ساتھ شام کے دارالخلافہ اور کئی اہم عسکری مراکز پر بمباری کی اور شام کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ واپس جواب دے سکے۔ شام کے اندر خانہ جنگی کا کس کو فائدہ ہوا؟ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور چند دن پہلے قطر پر بھی اسرائیل نے حملہ کیا، لیکن قطر جیسے خوشحال ملک نے بھی کوئی جوابی کاروائی نہیں کی۔ ہمارے ملک میں پاک فوج اوراس کی طاقت اور اس کے بجٹ کے اوپر تنقید کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔

اب واپس میرے پچھلے سال کے مضمون کے اوپر آتے ہیں۔ میں نے جو آخر میں لکھا اس سے آج کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا۔ نہ صرف انقلاب کے بغیر ہم نے بھارت کو جنگ میں ہرایا (جبکہ بھارت ہم سے دس گنا زیادہ دفاعی بجٹ رکھتا ہے)، لیکن ہم نے سفارتی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ جہاں امریکا کی جانب سے بھارت پر 50٪ ٹیرف لگ چکا ہے، وہیں پاکستان نے کامیاب سفارتی مذاکرات کے ذریعے 19٪ ٹیرف حاصل کرلیا۔ یہاں ان لوگوں کو منہ کالا ہوا جنہیں بھارت کی خارجہ پالیسی سے عشق تھا۔ جو جلسوں میں بے شرموں کی طرح ہمارے دفتر خارجہ پر تنقید کرتے تھے۔ جو کہتے تھے ہماری خارجہ پالیسی غلاموں کی خارجہ پالیسی ہے، جبکہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے ان لوگوں کے منہ نہیں تھکتے تھے۔

اور یہ سب تو میں نے مضمون کے اختتام پر لکھا تھا۔ مضمون میں میں نے زیادہ پیشین گوئیاں (جو عنوان سے ظاہر ہوتا ہے) بنگلہ دیش کے حوالے سے کی تھیں۔

میں نے لکھا تھا کہ بنگلہ دیش میں اب بہتری ممکن نہیں۔ ملک تنزلی کا شکار ہوگا۔ کیونکہ جس طرح وہاں حکومت گرائی گئی، اس طرز پر جہاں بھی حکومتوں کا تختہ الٹا گیا ہے، ہمیشہ تباہی ہی اس قوم کا مقدر رہی ہے۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک ہی سال بعد نیپال میں بھی یہی سب دیکھنے کو ملے گا، لیکن زیادہ شدت کے ساتھ۔

اور پھر تھوڑا سرسری سا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ نیپال میں یہ ہوتا رہتا ہے۔ کچھ دہائیوں پہلے وہاں بادشاہت کے خلاف بغاوت کی گئی۔ بادشاہت ختم ہوئی اور موجودہ حکمران طبقہ وجود میں آیا۔ آج لوگ ان سے خوش نہیں، لہذا ان سے بے زار ہیں۔ اب وہاں کے لوگ اپنے ٹیکس کے پیسے سے بنی عمارتوں کو جلا کر خوش ہو رہے ہیں۔ ان بیوقوفوں کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے ہی پیسے کو آگ لگائی ہے اور بعد ازاں ان عمارتوں کی مرمت کے لیے بھی انہی لوگوں کی جیب خالی کی جائے گی۔

خیر، میری جو پیشین گوئیاں بنگلہ دیش کے حوالے سے تھیں، وہی نیپال کے حوالے سے بھی ہیں۔ دونوں ممالک کے عام لوگوں کو ان ساری انقلابی حرکتوں سے کچھ نہیں ملنے والا۔ الٹا، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ساری حرکتیں، جو بظاہر اشرافیہ اور حکمران طبقے کے خلاف لگتی ہیں، دراصل غریب کو ہی مزید تباہ کرتی ہیں۔ خاص طور پر وہ غریب اور عام شہری جو محنت کش ہے، جو کام کرنا چاہتا ہے۔

انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد دوسرے لوگوں کی تباہی سے کبھی عبرت حاصل نہیں کرتا۔ نیپال اور بنگلہ دیش کے لوگوں نے جو کیا ہے اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔ شاید میں غلط بھی ثابت ہوسکتا ہوں، لیکن اس بات کا قوی امکان ہےکہ بنگلہ دیش اور نیپال میں آگے جاکر وہ سب دیکھنے کو ملے گا جو ہمیں آج شام، لبیا، ہیٹی اور یمن جیسے ممالک میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مشرق وسطی کے وہ ممالک جہاں اشرافیہ اور حکمران طبقے کو سبق سکھانے کے لیے لوگ باہر نکلے، آج وہاں غریب اور عام بندے کا کیا حال ہے؟ لہذا، بنگلہ دیش ہو یا نیپال یا کوئی اور ملک۔۔ جہاں بھی اس قسم کی حرکت ہوگی، نتیجہ منفی ہی ہوگا۔

کمال کی بات ہے نا! کچھ قومیں جنگوں کے بعد بھی اپنے پیروں کو کھڑی ہوجاتی ہیں۔ آج ترقی یافتہ دکھنے والے ممالک (جیسے کہ چاپان، چین، سنگاپور، متحدہ عرب امارات اور جنوبی کوریا)، ایک وقت میں بدحالی کا شکار تھے۔ لیکن اس کے برعکس آپ کو لبیا اور شام جیسے ممالک بھی مل جائیں گے، جہاں پہلے حالات مثالی نہیں تھے، لیکن آج کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں، تو وہ حالات کافی بہتر تھے۔ جبکہ آج وہاں صرف تباہ حال عمارتیں نظر آرہی ہیں، وہاں کی اکثر آبادی نقل مکانی کرچکی ہے۔۔

ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ کیا ہمیں شام، لبیا، ہیٹی، عراق اور یمن بننا ہے؟ آج سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ریاست کو گالیاں دینے والوں کو چاہیے کہ وہ ایک بار یمن، لبیا، عراق اور شام کا دورہ کریں۔ آزادی اظہار رائے کے پیچھے چھپنے والے لوگ جو کبھی انقلاب فرانس کی مثال دیتے ہیں تو کبھی انقلاب ایران کی، انہیں چاہیے کہ جاکر ایران میں دیکھیں کہ ریاست کے خلاف ٹرینڈ چلانے والے، ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والے، ریاست کو گالیاں دینے والوں کے ساتھ وہاں کیا ہوتا ہے۔

لیکن ہماری مثال اس بندے کی ہے جو مدینہ کی ریاست بھی چاہتا ہے، ساتھ ساتھ جلسے میں موسیقی اور رقص بھی چاہتا ہے، ساتھ ساتھ اسے ریاست کے خلاف بغاوت بھی کرنی ہے، انقلاب ایران جیسا کوئی انقلاب بھی برپا کرنا ہے، لیکن اس نے توقع یہ رکھی ہوئی ہے کہ ریاست اس کی بغاوت پر اس سے تعاون کرے اور اسے اس کی من مانی کرنے دے۔

خیر، دوستو! میں یہ مضمون یہاں تک لکھ چکا تھا کہ پتہ چلا، بلکہ خبر موصول ہوئی کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ طے پاگیا ہے۔ دونوں ملکوں نے اپنے دفاع کو مشترک کرلیا ہے۔ اب اگر پاکستان پر حملہ ہو یا سعودی عرب پر، تصور دونوں پر ہی کیا جائے گا اور دونوں ممالک اپنے دفاع کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ کل، اللہ نہ کرے، اگر ہمارے مقدس مقامات کو نشانہ بنایا گیا تو پاکستان فوج کو موقع ملے گا کہ وہ دشمنان اسلام کے خلاف کاروائی کریں اور ان کے جہاز اور ان کے ہتھیار کا بھی وہ حال کریں جو رافیل اور بھارت کے جنگی طیاروں کا ہوا۔

بطور مسلمان اور پاکستانی یہ ہمارے لیے قابل فخر لمحہ ہے اور یہ لمحہ یوتھیوں اور پاک فوج مخالف لوگوں کے منہ پر ایک زور دار، زناٹے دار تھپڑ ہے۔ پاکستان اپنی قابل فوج (مسلم دنیا کی اکیلی جوہری ہتھیار رکھنے والی طاقت) کے ذریعے بے انتہا کامیابیاں حاصل کر رہا ہے، اب عقل مندوں کو سمجھ آجانا چاہیے کہ پاک فوج ہی بھارت، ہمارے نام نہاد روشن خیال لوگ اور فتنہ فسادی خان کے نشانے پر کیوں ہے۔ کیوں فوج کے بجٹ پر بحث کی جاتی ہے، فوج پر تنقید کی جاتی ہے، فوجی افسروں کے مراعات پر حسد کو جنم دیا جاتا ہے۔ حسد کی وہی طاقت جس نے دنیا کے پہلے قتل کو وجود دیا، ایک ایسا غلط عمل جس نے ایک بھائی کو اپنے ہی بھائی کو قتل کرنے پر مجبورکیا۔

اب یوتھیوں اور فتنہ خان کے پیروں کاروں سے عرض ہے کہ جعلی خبریں بنائیں کہ محمد بن سلمان کو ڈی ایچ اے میں پلاٹ دیے گئے ہیں جس کی بنیاد پر انہوں نے تمام مسلم ممالک کو چھوڑ کر یہ اعزا ز صرف پاکستان کو دیا اور بتائیں کیسے اتنی سفارتی کامیابیوں کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی غلاموں کی خارجہ پالیسی ہے اور بتائیں بھارت کی خارجہ پالیسی، جس کی وجہ سے اس پر امریکا کی جانب سے 50٪ ٹیرف لگ چکا ہے، وہ بہترین ہے اور بتائیں کیسے شام، لبیا، عراق جیسی صورتحال قائم کرنے سے ہمارے ملک میں بہتری آئے گی، جو کہ ان ممالک میں آج دکھائی نہیں دیتی۔

ہر آتے دن کے ساتھ پاکستانی فوج اور پاکستانی ریاست کے دشمنوں کا منہ کالا ہورہا ہے۔ لیکن عقل کے اندھوں کو سیاہ اور سفید کی کیا پروا۔ ان کو بس نعرے چاہییں اور جعلی بیانیا۔ بس!

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam