Monday, 02 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Fradiya Aur Bayaniya

Fradiya Aur Bayaniya

فراڈیہ اور بیانیہ

فراڈیےکی بہت سی علامتیں ہوتی ہیں۔ آج ہم آپ کو وہ علامتیں بتانے جارہے ہیں۔ آپ کے بہت سے جاننے والے، رشتے دار اور عزیز کبھی نہ کبھی اپنی زندگی میں فراڈ کا شکار ضرور ہوئے ہونگے اور پوری دنیا میں فراڈ ہوتے ہیں، "پونزی اسکیم" کا لفظ ہی باہر سے آیا ہے۔ لہذا لوگوں کو فراڈیوں سے بچنا چاہیے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ان کی علامتوں کو جانچیں۔

فراڈیے کی سب سے پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ آپ کو سبز باغ دکھائے گا۔ ایسی باتیں بیان کرے گا جو حقیقت پر مبنی نہیں ہونگی۔

اس کی ایک مثال وہ جعلی اسکیمیں ہیں جن میں لوگ اپنا پیسہ پھنسا دیتے ہیں۔ وہ اسکیم والے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ بھئی! اگر بینک آپ کو فلاں فیصد منافع دے رہی ہے، تو ہم آپ کو اس سے دو تین گنا زیادہ منافع دیں گے۔ اب پاکستان کی جو نامی گرامی بینکز ہیں، وہ کئی سالوں سے کاروبار کر رہی ہیں، جبکہ وہ اسکیمز جو لوگوں کو جھوٹے منافع کا خواب دکھاتی ہیں یہ کہہ کر کہ ہم آپ کو زیادہ منافع دیں گے، اس اسکیم کے نام سے بھی لوگ آشنا نہیں ہوتے۔ پھر بھی لوگ یہ سوچتے نہیں کہ جب بینکز اس قدر منافع نہیں دے سکتیں تو یہ نیا ادارہ جس کو ابھی بازار میں آئے جمع جمع آٹھ دن ہوئے ہیں وہ ہمیں زیادہ منافع کیسے فراہم کرے گا؟ سادہ طبیعت لوگ یہ سوچتے نہیں اور اپنے پیسے جاکر ان جعلی لوگوں کو پکڑا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ چند ماہ بعد وہ ادارہ ہی غائب ہوتا ہے۔

پھر فراڈیےکی دوسری علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخالفوں کی بے جا برائیاں کرے گا، ساتھ ساتھ وہ اپنی اچھائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا۔ کسی ایماندار تاجر یا دکان دار یا کوئی بھی شخص جو کوئی سہولت فراہم کرتا ہو، اس کو آپ نے دیکھا ہے اپنی تعریف کرتے ہوئے؟ اس کا کام ہی اس کی تعریف ہے۔ نہ وہ اپنے مخالفوں کی برائیاں کرے گا۔ کبھی کسی ایماندار دکان دار کو آپ نے یہ کہتے سنا ہے کہ دیکھو یہ جو دوسرے دکان دار ہیں وہ سارے چور، ڈاکو اور لٹیرے ہیں۔ بلکہ ایمان دار تاجر اور دکان دار کہتا ہے کہ بے شک آپ کسی اور جگہ جاکر قیمتیں پوچھ لیں یا کہیں اور زیادہ اچھی او ر معیاری چیز ملتی ہے تو آپ لے لیں۔ وہ اپنے آپ کو کل کائنات کی تمام اچھائیوں کا مالک نہیں بتائے گا کہ جی! میں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

تیسری علامت فراڈیے کی یہ ہوتی ہے کہ وہ بے انتہا خوش مزاجی کا مظاہر ہ کرے گا۔ بہت تمیز سے پیش آئے گا۔ آپ جس بھی وقت اسے فون کریں وہ فون ضرور اٹھائے گا۔ آپ کے جو بھی سوال ہوں، جو بھی شکوک و شبہات ہوں، ان کا وہ بروقت جواب دے گا۔ لیکن جیسے ہی آپ نے اسے پیسے پکڑائے وہ آپ کو دنیا جہان کے بہانے پیش کرے گا۔ وہ سارے سبز باغ جو اس نے شروع میں آ پ کو دکھائے ہوں، ان کو پورا کرنا تودور، وہ اب آپ کی فون بھی وقت پر نہیں اٹھائےگا۔ ساتھ ساتھ وہ بہت سی توجیحات پیش کرتا رہے گا اپنی ناکامیوں کے حوالے سے۔ وہ آپ کو انتظار کروائے گا، کہتا رہے گا کہ جی! چند دن انتظار فرمائیں کام ہوجائے گا۔ کام ہوگا نہیں۔

اب یہ تین نشانیاں آپ اپنے ذہن میں رکھیں اور پھر جتنے بھی لو گ جن کو آپ جانتے ہیں، جن کے ساتھ کبھی نہ کبھی زندگی میں فراڈ ہوا ہے، انہیں جاکر ان نشانیوں یا علامتوں سے آگاہ کیجیے۔ ان سے پوچھیے کہ انہوں نے فراڈیے میں یہ ساری نشانیاں دیکھیں یا نہیں؟ وہ انشاء اللہ آپ کو مثبت جواب دیں گے۔ کہیں گے بالکل!

اب آتے ہیں ملک کے سیاسی فراڈیے کی جانب۔ ہمارے ملک میں تین لیڈران ہیں، جو تین بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان ہیں۔ کس لیڈر میں آپ یہ ساری علامتیں پاتے ہیں؟

فراڈیے کی سب سے پہلی علامت ہے سبز باغ دکھانا۔ ایسے خواب لوگوں کو دکھانا جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے۔۔ جو نہ عملی ہوتے ہیں اور نہ ہی حقیقی۔

کس نے دعوی کیا تھا کہ 90 دن میں بدعنوانی کا خاتمہ ہوجائے گا؟ کس نے کہا تھا گورنر ہاوسز کی دیواریں گرائی جائیں گی؟ کس نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جائے گا۔ کس نے 1 کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا؟ کس نے کہا تھا کہ میں بڑی مثالی حکومت چلاؤں گا اور بہت کم اخراجات ہونگے ہماری حکومت کے اور پھر پتہ چلا کہ وہ روز بطور وزیر اعظم اپنے گھر سے وزیر اعظم کے دفتر تک بذریعہ حکومتی ہیلی کاپٹر کے سفر کرتے تھے۔ جبکہ ان کا گھر اسلام آباد سے چند منٹوں کے فاصلے پر ہے۔ کون کہتا تھا کہ میں اقتدار میں پیسہ بنانے کے لیے نہیں آؤں گا؟ کس نے کہا تھا ہم پولیس کو غیر سیاسی کردیں گے۔ جبکہ آج ان کی صوبائی حکومت ریاستی مشینری کو اپنے سیاسی جلسوں اور دھرنوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ کس نے یہ رنگین خواب دکھائے تھے کہ دوسرے ملکوں سے لوگ پاکستا ن میں نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے؟ کس نے کہا تھا کہ میں ملک کو قرضوں سے پاک کر دوں گا۔

تو یہ سارے سبز باغ کس نے دکھائے؟

اسی طرح دوسری علامت ہے کہ فراڈیہ اپنی دکان چمکانے کے لیے مخالفین کی برائیاں کرتا ہے اور اپنی اچھائیوں کے حوالے سے مبالغے کا شکار ہوتا ہے۔

کس سیاسی لیڈر کی دکان چمکتی ہی اس لیے ہے کہ اس نے لوگوں کو باور کرا دیا ہے کہ اس کے سارے مخالفین چور ڈاکو اور لٹیرے ہیں؟ کس کی تقریروں اور جلسوں سے اس بات کی جھلک ملتی ہے؟ اور اس کی زبان کا کوئی بھروسہ نہیں۔ آج وہ جس کو چور، ڈاکو اور لٹیرا کہہ رہا ہے، کوئی بعید نہیں کہ کل وہ انہی کے ساتھ ہاتھ ملا لے۔ راتوں رات" مولانا ڈیزل" مولانا فضل الرحمان بن جاتے ہیں۔ ان کے گھر کے چکر لگائے جاتے ہیں۔ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو پنجاب کا سب سے بڑا وزیر بھی بن جاتا ہے۔ شیدا ٹلی، ایک ایسا شخص جس کو کہا جاتا ہے کہ میں تمہیں چپراسی بھی نہ رکھوں، اسے امور داخلہ اور ریل وے کےقلم دان سونپ دیے جاتے ہیں۔

اسی طرح تیسری نشانی یہ ہے کہ جب فراڈیے کا کام ہوجائے تو وہ بہانے پیش کرتا ہے۔

کون سا سیاسی لیڈر اپنی ناکامیوں کے پیچھے بے انتہا بہانے فراہم کرتا ہے؟ کبھی اس کی حکومت امریکہ کی ریاست گراتی ہے تو کبھی جنرل باجوہ۔ کون ہے جو کہتا ہے کہ حکومت تو تھی لیکن اختیار نہیں تھا، ہاتھ بندھے تھے۔ کس کے پاس ایک صوبے کی حکومت پچھلے دس سالوں سے ہے، لیکن اس صوبے کو آج تک نہ قرضوں سے پاک کیا گیا ہے، نہ وہاں غیر ملکی نوکری ڈھونڈنے آتے ہیں، نہ وہاں ایک کروڑ نوکریاں ملی ہیں، نہ وہاں امن قائم ہوا ہے۔ بلکہ ابھی جب موصوف کی صوبائی حکومت پوری ریاستی مشینری دھرنوں کے لیے استعمال کر رہی تھی اور جعلی لاشیں اسلام آباد میں ڈھونڈ رہی تھی، اسی وقت کرم ایجنسی (جو کے پی حکومت کے زیر سایہ ہے)میں 100 سے زائد حقیقی لاشیں گریں، لیکن اس طرف نہ صوبائی حکومت کی توجہ ہے اور نہ ہی اس شخص کی جو پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی فراڈیہ ہے اور جیسے فراڈیے کے بارے میں ہم نے آپ کو بتایا، وہ کام تو نہیں کرپاتا، انتظار کا ضرور کہتا ہے۔ لہذا انتظار کیجیے۔ جو پچھلے دس سالوں میں نہیں ہوا، وہ اب ہوجائے گا۔

ہاں! ایک اور علامت تو میں بتانا ہی بھول گیا۔ فراڈیہ کسی کام کا نہیں ہوتا، لہذا لوگوں کو بیوقوف بنانا ہی اس کا کام ہوتا ہے اور کام سے میری مراد ہے کوئی ٹھوس کام۔ آپ کرکٹ کتنی ہی اچھی کیوں نہ کھیلتے ہوں، اس کا فائدہ کچھ نہیں۔ لیکن فرض کریں کسان اپنا کام چھوڑدیں، بجلی کے کارخانے بجلی بنانا بند کردیں، طبیب حضرات بیماریوں کی تشخیص کرنا اور علاج کرنا بند کردیں، تو ملک بند ہوجائے گا۔ لیکن کرکٹ نہ کھیلنے سے ملک بند نہیں ہوتا۔ کئی ممالک ہیں جہاں کرکٹ نہیں کھیلی جاتی، وہ ممالک کرکٹ کے بغیر چل رہے ہیں۔

تو وہ بندہ جس نے کبھی کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جس سے ملک کی تعمیر اور ترقی جڑی ہو، اسے پھر فراڈیہ ہی بننا پڑتا ہے۔ یہ ایسا شخص ہوتا ہے جس نے زندگی میں کبھی کوئی ڈھنگ کی نوکری ہی نہیں کی ہوتی۔ تو کونسا سیاسی لیڈر ہے جو خو د فرماتا ہے کہ اس نے زندگی میں صرف ایک بار نوکری کی اور وہ بھی چند دنوں کے لیے، کیونکہ وہاں بھی اس نے اپنی فطرت سے باز نہ آتے ہوئے پھڈے جھگڑے شروع کیے اور وہ بھی کسی اور ملک میں، اپنے ملک میں نہیں اور اس کی حرکتوں کے باعث اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔

تو ملک کے سیاسی فراڈیے کی ساری علامتیں آپ کو چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ ہم آج جہاں کھڑے ہیں وہاں کیوں کھڑے ہیں۔ جو قوم ایک فراڈیے کو اپنا رہنما اور رہبر مانتی ہو اور اس کو مقبولیت کا شرف عطا کرتی ہو، اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔

تو کس سیاسی لیڈر کے تمام بیانات ہر آئے دن تبدیل ہوتے رہتے ہیں؟ کس کے تمام وعدے اور دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے؟ کس نے آج تک کوئی عملی اور ٹھوس کام کرکے نہیں دکھایا۔

ہاں! پروپگینڈہ کروالیں ان سے، ایسی وڈیوز بنوالیں ان سے جس سے لوگوں کی ذہن سازی ہو۔ الزام، وہ بھی بے بنیاد، گالیاں، وہ بھی فحش اور صرف ایسے وعدے جن کو آج تک شرمندہ تعبیر نہ کیا گیا ہو: صرف یہی ان لوگوں کا کارنامہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جلسوں اور دھرنوں میں رقص بھی فراہم کرتے ہیں، موسیقی بھی چلاتے ہیں، جھوٹ در جھوٹ پر مبنی پروپگینڈہ بھی کرتے ہیں، ریاست پر چڑھائی بھی کرتےہیں، حتی کہ اپنے ہی ملک کی فوج اور حکومت کے خلاف دشمن ملک کے ساتھ ملک کر پروپگینڈہ کرتے ہیں، عالمی عداروں کو خطوط لکھتے ہیں کہ پاکستان کی امداد بند کی جائے، اس کو قرضوں کی قسطیں فراہم نہ کی جائیں، کچھ ان میں سے ایسے ہیں جو پاکستان پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں۔۔ صرف یہ ہے ان لوگوں کی کل جمع پونجی۔ اس کے علاوہ کوئی ٹھوس کام ان سے نہیں ہوتا۔

پچھلے دو ڈھائی سالوں سے یہ لوگ انقلاب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (ہاں! یہ لوگ پناہ ان ملکوں کی نہیں لیتے جہاں انقلاب آیا ہو، یا جہاں یہ لوگ انقلاب لائیں تو ان کو اجازت ہو۔)کوئی تعمیری کام تو ان سے ہوگا نہیں۔ لہذا اب ان فراڈیوں نے ایک نیا وطیرہ اپنا لیا ہے۔ پہلے ملک کے خلاف، اس کی معیشت کے خلاف، اس کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف، اس کے وجود کے خلاف، بیانیہ بناؤ، پھر لوگوں کو مشتعل کرو کہ وہ اپنے ہی ملک کی املاک کو نقصان پہنچائیں، ریاست پر چڑھائی کریں، راستے شاہراہیں بند کریں۔۔ وغیرہ وغیرہ

لیکن پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ لوگ نا اہل ہیں۔ ان کا لیڈر بے عقل ہے اور جذباتی بھی، اس لیے یہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں۔ لہذا نہ یہ تعمیر کرسکتے ہیں اور نہ ہی ڈھنگ سے تباہی۔ الحمد اللہ! یہ وہ انقلابی ہیں، جن کا لیڈر قید خانے میں پسند کے کھانے منگواتا ہے، کوک کی کینز منگواتا ہے، پورٹا کا باتھ روم چاہتا ہے، ورزش کی مشینیں چاہتا ہے، ائیر کولر چاہتا ہے، ایک مشقتی چاہتا ہے اور یہ سب اسے فراہم کیا بھی جاتا ہے۔ صدقے جاؤں ایسے انقلابی کے!

یہ لوگ بیانیہ ہی بنا سکتے ہیں اور ان کا بیانیہ پاکستان میں ہی مقبول ہوسکتا ہے۔ یہاں نہ اکثر لوگ مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی خبر کی تصدیق کرتے ہیں۔ نہ تحقیق کا رواج ہے۔ اکثر جذباتی لوگ ہیں اور انہیں سوشل میڈیا یا کسی کی زبان سے کوئی خبر یا بیانیہ پہنچے تو وہ اس کی تصدیق نہیں کرتے کہ بات میں کتنی صداقت ہے۔

لیکن بیانیہ بنانے سے فصلیں نہیں اگتیں۔ نہ ہی بیانیہ کارخانے چلاتا ہے۔ نہ ہی بیانیے سے لوگوں کی صحیح کردار سازی ہوتی ہے۔ بیانیہ امن نہیں قائم کرتا۔ بیانیہ صرف ذہن سازی کا موجب بنتا ہے اور یہی فراڈیے کا سب سے بڑا ہتھیار بھی ہے۔ کبھی 35 پنکچر تو کبھی امریکی سازش تو کبھی کچھ۔۔

ہمارے ملک میں بیانیہ اور فراڈیہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جتنا مقبول فراڈیہ اتنا ہی مقبول اس کا جعلی بیانیہ۔

Check Also

Dukhon Ka Dar Kya Khula Rahega

By Mojahid Mirza