Falasteen Aur Pakistan
فلسطین اور پاکستان
وہ لوگ جو ابھی بذریعہ ٹی وی یا انٹرنیٹ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت ملاحظہ کر رہے ہیں، انہیں چند لمحوں کے لیے ان باتوں پر ضرور غور کرنا چاہیے:
کیاآج اسرائیل یہ سب کچھ اس لیے کر پارہا ہے کیونکہ اس نے شور مچایا اور مسلم دنیا کی چیزوں کا بائیکاٹ کرنا شروع کیا؟ کیا آج یہودی کی طاقت —چاہے وہ اقتصادی طاقت ہو یا سائنس اور ٹیکنولوجی سے وابستہ—اس بات سے جڑی ہوئی ہے کہ وہ اپنا مقدمہ کتنا بہترین لڑتا ہے اور راستوں شاہراہوں پر احتجاج کرتا ہے؟ کیا یہودی مختلف لوگوں سے قطع تعلق ہوکر اس جگہ پہنچا ہے؟
اس کا جواب منفی ہے۔ یہودی کی طاقت بائیکاٹ اور احتجاج میں نہیں۔ اس نے ہمارے مسلم ملکوں کے بیچوں بیچ اپنی ریاست بنالی اور کئی دہائیوں سے وہ وہاں دندناتا پھر رہا ہے اور ہم کچھ نہیں کر پارہے۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک مقروض ہیں، غربت کا شکار ہیں، جدید دنیا سے ٹیکنولوجی اور سائنس کے میدان میں پیچھے ہیں۔ جو مسلم ممالک دولت یافتہ ہیں ان میں بھی اکثر ممالک تیل کی دولت سے مالامال ہیں۔ انسانی ذہانت کا ان کی دولت سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ اس تیل کو نکالنے کے لیے جو سامان اور ہنر چاہیے انہیں وہ دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔
اور صرف تیل نکالنے کے لیے نہیں، بلکہ شاہراہیں تعمیر کرنے کے لیے، ان کی فوج کو تربیت دینے کے لیے، ان کے منصوبوں کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان ممالک کو ہر ملک سے لوگوں کی ایک کثیر تعداد بلانی پڑتی ہے۔ ان کی اپنی آبادی اس قابل نہیں کہ وہ یہ سب کام کرسکے۔
اس کے برعکس اسرائیل کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔
اب عقل مند کو تو یہ چاہیے کہ وہ مسلم ممالک میں جتنا ہوسکے دولت کمانے پر زور ڈالے، انہیں کہے کہ تم جدید دنیا کے اقتصادی نظام سے جڑو اور اپنا لوہا منواؤ، تم سائنس اور ٹیکنولوجی کے میدان میں چھا جاؤ اور یہودیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دو۔ آج یہودی پیسے اور ٹیکنولوجی کے زور پر ہم کو نشانہ بنا رہا ہے، ہم بھی کسی سے کم نہیں، ہم بھی دولت اکھٹی کریں گے، لگائیں گےاور جمع کریں گے اور سائنس اور ٹیکنولوجی کے میدان میں اس قدر آگے جائیں گے کہ ہمارے اسلحے کا یہودی مقابلہ نہ کرسکے۔
افسوس اس کے برعکس ساری حکمت عملی نظر آرہی ہے۔
ہم لوگ تاریخ سے سیکھتے نہیں۔ پچھلے ادوار میں بھی ہم نے پیچھے رہنے کو ترجیح دی، نتیجتاً ہم اپنے ممالک کا دفاع نہ کرسکے۔ ہمارے پاس گوروں کے خلاف نہ جدید اسلحہ تھا، نہ تربیت، نہ ٹیکنولوجی۔ دولت تھی تو ہم نے فضول کاموں پر اڑا دی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ایک ایک کرکے سارے ہمارے ممالک انگریزوں اور فرنگیوں کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ ان لوگوں نے جاتے جاتے ہمیں اسرائیل کا تحفہ دیا اور پھر رخصت ہوگئے۔ اگر مسلم ممالک تگڑے ہوتے، ہنر اور ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوتے، تو نہ فرنگی ہمارے ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجاتے، اور نہ ہی وہ اسرائیل ہمیں تحفے میں دے کر جاتے۔
آج ہمیں نظر آتا ہے کہ سوشل میڈیا پر مختلف عالمی فاسٹ فو ڈ چینز کا بائیکاٹ کرنے کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ انفلوئنسر جو یہ سب کہہ رہا ہے، وہ خود مونیٹائزیشن سے کمائی ہوئی دولت ٹھکرائے گا؟ کیا وہ اس اسمارٹ فون کو چھوڑے گا جس کا تانا بانا بھی کسی نہ کسی طرح اسرائیل یا اس کے ساتھیوں سے ملتا ہے؟ سوشل میڈیا، آئی ٹی اور ٹیکنولوجی میں یہودی کا کردار کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ان صاحبان سے کوئی پوچھے کہ پھر آپ یہاں کیوں بیٹھیے ہو؟ اگر حقیقت میں مکمل بائیکاٹ کرنے پر ہم آئے تو ہمیں جنگل کی راہ لینی پڑے گی۔ ہر چیز جو ہم استعمال کر رہے ہیں اس کا تعلق براہ راست یا بلاواسطہ یہودی، اسرائیل اور اس کے ساتھیوں سے ہے۔ ایک ہی ذریعہ ہے یہودیوں کا بائیکاٹ کرنے کا، آپ پتھر کے دور میں چلے جائیں۔
اور بالفرض ان لوگوں کی بات مان لی جائے، تو کیا اس سب سے اسرائیل، یہودی یا ان کے ساتھی غریب ہونگے؟ کئی جگہوں پر جن فوڈ چینز کے بائیکاٹ کی وجہ سے اگر کچھ فرینچائزز اپنا کاروبار لپیٹتے ہیں تو اس سے فرینچائز کے مالک کا نقصان ہوگا؟ یا ان عالمی برینڈز کا نقصان ہوگا؟ ان کا نقصان ہوگا لیکن معمولی—انہوں نے بہت مال کما لیا ہے اور مختلف جگہوں پر لگا بھی لیا ہے۔ ان کے بچے بھوکے نہیں مریں گے آپ کے بائیکاٹ سے، نہ ہی وہ پیچھے رہ جائیں گے۔ نہ ہی وہ غربت کا شکار ہونگے۔
بڑا نقصان اس بندے کا ہوگا جو مسلمان ہے اور ان برینڈز میں کام کرتا ہے اور ماہانہ اچھی تنخواہ لے جاتا ہے۔ وہ تنخواہ جو اسے دیسی برینڈز نہیں دے پاتے۔ کبھی ان بھلے لوگوں نے سوچا ہے کہ ان غریبوں کا کیا ہوگا؟ ویسے ہی غربت کے شکار ہیں آپ کے اکثر ممالک۔ یہ انفلوئینسرز ان لوگوں کو نوکری دیں گے؟
یاد رہے ہماری لعن طعن، ہمارے احتجاجوں سے فلسطین آزاد نہیں ہوگا۔ ہم کئی دہائیوں سے یہودیوں کو اور اسرائیل کو گالیاں دے رہے ہیں۔ لیکن اس دوران یہودیوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ الٹا وہ مختلف میدانوں میں جھنڈے گاڑتے جارہے ہیں اور ہم محض احتجاج اور بائیکاٹ کو ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں۔
ہم بجائے اپنے ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں، ہم وہی غلطیاں دوہرا رہے ہیں۔
دوسری طرف ایک لمحے کے لیےسوچیں کہ ہم دن رات پاکستان میں موجود مشکلات کا رونا روتے ہیں۔ کچھ اپنے ہی ملک کو گالیاں دیتے ہیں۔ بھئی!پاکستان سے زندہ بھاگ!اس قسم کی باتیں ہم کرتے نہیں تھکتے۔ اور ایسے بے غیرت بھی ہم نے پیدا کیے ہیں جو اپنی ہی فوج کو گالیاں دے رہے ہیں، ان کے خلاف منفی مہم چلا رہے ہیں، جو اپنے لیڈر کے عشق میں ملک کو آگ لگانا چاہتے ہیں، جو کئی بار ملک کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، جو مختلف اوقات میں دارالخلافہ کے درخت اور دفاترنذر آتش کر چکے ہیں اور پاکستانی پرچم بھی۔
فلسطینیوں سے پوچھیں، جو لوڈ شیڈنگ بھی برادشت کرنے کے لیے تیار ہیں، غربت اور مہنگائی بھی، لیکن انہیں اپنا وطن چاہیے اور ایسی فوج جو ان کا دفاع کرسکے۔ فی الحال تو ان کے پاس جو فوج ہے وہ پانی کے پائپز کا استعمال کرکے روکٹ گولے بنا رہی ہے۔
ہمارے بچوں کی طرح ان کے بچے رات کو پر سکون نہیں سوتے۔ ہمارے بچے کو پتہ ہے کہ جتنا بھی غریب ہوں صبح صحیح سلامت اپنے والدین کے ساتھ اٹھوں گا۔ یہ بھی ایک بہت بڑی نعمت اللہ نے ہمیں دی ہے۔ اگلی بار کوئی ملک کو گالیاں دینے والا، اس کی برائیاں گنوانے والا ملے، تو اسے ضرور پوچھیے گا، کہ کیا ہم اس فلسطینی بچے سے بھی بدتر ہیں جسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اٹھنے کے بعد وہ اپنے گھر موجود ہوگا یا ہسپتال، جہاں شاید اس کے والدین موجود نہ ہوں اور دنیا فانی سے کوچ کرچکے ہوں؟
یہ ہماری ناشکری ہے۔ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمانوں کا حال برما، چین، بھارت، کشمیر، اور فلسطین میں کیسا ہے، ہم اپنی فوج کو جب گالیاں دیتے ہیں، جو آخری دیوار ہے ہمیں اُن مسلمانوں کے حال سے بچانے کے لیے، تو یقین مانیے وہ دن دور نہیں جب یہاں بھی یہ سب ہوگا۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ یہ سب کچھ اسرائیلی نہیں بھارتی کررہے ہونگے۔ پھر ہماری عورتوں، بچوں کے ساتھ کیا ہوگا، ہمارے مردوں کو جس تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا، اس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
اللہ اپنی نعمت یا تو آزمائش کے واسطے انسان سے چھینتا ہے یا ناشکری کی وجہ سے۔
آزمائش تو ہماری ہونی نہیں، کیونکہ ہم ولی اللہ نہیں، ہم پاک صاف لوگ نہیں۔ ہم ایک زانی کو اپنا مقبول رہنما بنا کر بیٹھے ہیں، لہذا ہم سے نعمت ہماری ناشکری کی وجہ سے چھینی جائے گی۔
ہم ناشکری کیے جارہے ہیں پاکستان کی نعمت کے حوالے سے بھی اور فوج کی نعمت کے حوالے سے بھی۔ فی الحال اللہ ہمیں ڈھیل دے رہا ہے۔ ہمیں سدھرنے کا موقع مل رہا ہے۔
شکر کریں گے تو اللہ ہمیں بڑھائے گا۔ لیکن ہماری ناشکری کایہی معیار رہا، تو اللہ نے ہمیں اپنے عذاب سے دوچار کرنا ہے۔ پھر احساس ہوگا کہ کتنا ہلکا لیتے تھے ہم کئی چیزوں کو اور وہ تھیں کتنی قیمتی۔