Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Basham Bachani/
  4. Dushmano Ke Kuttay

Dushmano Ke Kuttay

دشمنوں کے کتے

پاکستان کو وجود میں آئے ابھی صرف تین سال ہی گزرے تھے۔ قائد اعظم کے یوم وفات کے موقع پر ایک جلسہ منعقد ہوا تھا۔ اس جلسے میں اس وقت کے بہت سے مسلم لیگ کی اعلی قیادت سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی شریک تھے۔ جیسے کہ مولوی تمیز الدین، ایوب کھوڑو، یوسف خٹک۔۔ جلسے میں لیاقت علی خان نے ایک بنگالی سیاستدان کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ میں اس سیاستدان کا اور اس کی جماعت کا نام لیاقت علی خان کے پیغام سے ہذف کروں گا۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ لیاقت علی خان کے بیان کو آج کے تناظر میں ملاحظہ فرمائیں۔ نواب صاحب اس جلسے میں بولے:

"(وہ) اور اُن کی سیاسی جماعت۔۔ پاکستانی مسلمانوں کے اتحاد اور یقین کو توڑنے مروڑنے میں مصروف عمل ہے۔ (ان)کا دعوی ہے کہ پاکستان کے حالات روز بروز بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔۔ وہ اس قسم کی باتوں کا پرچار کرکے کس کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں؟ بے شک ہمارے دشمنوں نے یہ کتے ہمارے خلاف بھونکنے کے لیے چھوڑ رکھے ہیں۔ یہ لوگ وطن کے غدار ہیں، جھوٹے ہیں، منافق ہیں۔۔ "

(یہ تقریر کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ تقریر "پاکستان ٹائمز"کے 13 ستمبر، 1950 کے شمارے میں شائع ہوئی اور قدرت اللہ شہاب صاحب نے یہ اقتباس اپنی کتاب "شہاب نامہ" کے مضمون "صدر ایوب اور سیاست دان" میں محفوظ کیا تھا۔)

لیاقت علی خان کی دور اندیشی کو سلام! وہ جماعت بعد ازاں پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں کارگر ثابت ہوئی۔ خیر، جیسے کہ میں نے آپ سے عرض کیا، اس بیان کو آج کے تناظر میں دیکھیں گے تو آپ کو لیاقت علی خان مزید دور اندیش نظر آئیں گے۔ ملک کے حالات جونہی بگڑتے ہیں، چاہے ملک دہشتگردی کی زد میں ہو یا سیلاب سے متاثر، چاہے معاشی مسائل ہوں یا سیاسی، ایسے "کتوں" کی ہمارے ملک میں کمی نہیں رہتی جو دشمن کے پروپگنڈے کے آلہ کار بنتے ہیں۔

یہ لوگ آئے دن پاکستان کے تباہ ہونے کی پیشن گوئی کرتے ہیں اور یہ لوگ یہ کام قیام پاکستان کے وقت سے کرتے آرہے ہیں۔ اوجی! ملک میں خانہ جنگی ہوجائے گی، ملک دیوالیہ ہوجائے گا، پاکستان اب زندہ نہیں بچے گا۔۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں ایسے لوگوں نے تو انتہا کردی ہے۔ یوٹیوب پر ان بے شرموں کا پروپگینڈہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ عنوانات کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں: پاکستان تباہ! ، پاکستان کی موت، ناکام ریاست، وغیرہ وغیرہ۔

ان "کتوں" کے پیچھے پاکستان کی تاریخ ہے۔

بھارت کو شروع دن سے پاکستان کے قیام سے تکلیف تھی۔ اس لیے بھارت نے شروع دن سے کوشش کی کہ عالمی سطح پر پاکستان کی چن چن کر برائیاں نمایاں کی جائیں۔ جس کا مقصد صرف ایک ہے، پاکستان کی غلط منظر کشی کی جائے، جس سے عالمی دنیا اور اس کے مالیاتی ادارے اور سرمایہ کار پاکستان سے دور بھاگیں۔ وہی برائیاں جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، وہ بھارت میں کئی درجے زیادہ نمایاں ملیں گی آپ کو۔ لیکن وہاں وہ "کتے" نہیں جو اتنا تیز بھونکیں۔ بھارت حتی الامکان کوشش کرتا ہے کہ اپنی برائیاں چھپائے اور اپنی اچھائیاں نمایاں کرے۔

اس کے بر عکس ہمارے میڈیا اور سیاستدان (سوائے جب وہ اقتدار میں ہوں) اور سابق حکمران اور دانشور دن رات پاکستان کی برائیوں کا ذکر اس شد و مد سے کرتے ہیں جیسے انہیں اس بات کا انعام ملتا ہے۔ ظاہر ہے ملتا ہوگا۔ کیونکہ "کتے" بھی زندہ رہنے کے لیے کچھ کھاتے پیتے ہیں۔ یہ لوگ اس قدر مزے لے لے کر ٹاک شوز میں، انٹرویوز میں، پاڈکاسٹز میں اور دستاویزی فلموں میں پاکستان کی برائیاں کرتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے یہ ان کے لیے لذت آمیز کام ہے۔ ان کی شکل سے کہیں یہ جھلک نہیں عیاں ہوتی کہ یہ لوگ ملک کی ان برائیوں پر پریشان ہیں۔ بلکہ جتنا زور سے منہ کھول کر ملک کو اور اس کے اداروں کو گالیاں دی جاتی ہیں، اتنا ہی کیمرہ اور میڈیا پرسن اس شخص کے قریب جاتا ہے۔

آپ کو بھارت میں بھی بے انتہا غربت نظر آئے گی، کئی کسان وہاں ہر سال خود کشی کرتے ہیں، کئی بار وہ اپنی فصلیں سڑکوں پر احتجاجاً ضائع کرتے ہیں، کئی خواتین کے ساتھ اور نچلی ذات کے لوگوں کے ساتھ اور مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں، بارش کے بعد وہاں بھی کئی علاقوں میں بجلی معطل ہوجاتی ہے اور سڑکیں تالاب کا منظر پیدا کرتی ہیں، ہر سطح پر وہاں بھی رشوت دی اور لی جاتی ہے۔۔ لیکن اس سب کے باوجود وہاں کے لوگوں کو اپنے ملک پر تنقید کرتے آپ دیکھیں گے تو آپ کو حیرانی ہوگی۔ وہ بالکل ہی الگ انداز میں تنقید کرتے ہیں۔

یہ سب میں کیوں لکھ رہا ہوں؟ کیونکہ میں ایک رواج کو عام اور کامیاب ہوتا دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ اس قدر بے شرمی سے اپنے ملک پر تنقید کر رہے ہیں اور ملک کی اچھائیاں چھپا رہے ہیں اور وہ برائیاں جو پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں اسے پاکستان سے ایسے منسوب کرتے ہیں جیسے وہ برائی صرف پاکستان میں پائی جاتی ہو۔۔ لہذا، میں نے سوچا اس پر کچھ لکھا جائے۔ انٹرنیٹ پر، ٹی وی پر، سوشل میڈیا پر، ہر جگہ بس بھارت کی تعریف اور پاکستان کی برائی پیش کی جارہی ہے۔ جیسے کہ لیاقت علی خان نے پوچھا: "وہ اس قسم کی باتوں کا پرچار کرکے کس کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں؟" ظاہر ہے اس سے فائدہ صرف بھارت کو ہورہا ہے اور نقصان صرف پاکستان کو۔

آپ کو پتہ ہوگا کہ بھارت میں بابری مسجد کو شہید کرکے وہاں ابھی رام مندر تعمیر کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ ایک دن میں ہوا۔ اس کے پیچھے ہندوؤں کی کئی سالوں کی محنت ہے۔ انگریز دور سے ہندوؤں نے یہ کام شروع کیا اور آج اپنے منصوبے کو نقطہ عروج پر پہنچایا۔ اور آپ حیران ہونگے کہ بڑے بڑے اداکار اور سیاستدان اور میڈیا پرسنز اس بات کو جشن کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے دانشوروں کا حال ملاحظہ کیجیے۔ پرویز ہود بھائی صاحب اس واقعے پر ایک مضمون لکھتے ہیں جو 20 جنوری، 2024ء کو "ڈان" اخبار میں چھپتا ہے (عنوان: رام مندر— این اِل پورٹنٹ)۔ ہود بھائی صاحب لکھتے ہیں:

"جس طرح پاکستان اپنی ہندو آبادی کو کم حقوق کے ساتھ، کمتر شہری سمجھتا ہے، اسی طرح ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ناپسندیدہ اولاد ہیں"۔

یہ لوگ اس قدر بے غیرت ہیں کہ انہیں اپنے ہی لکھے پر ڈوب مرنا چاہیے۔ یاد رہے پاکستان کی پوری تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ رام مندر کی تعمیر کے پیچھے نرندر مودی اور بھارت کے کئی لوگ جشن منا رہے ہیں۔ نرندر مودی رام مندر خود تشریف لے جارہے ہیں۔ کبھی آپ نے پاکستان میں کسی بھی صدر یا وزیر اعظم کو یہ حرکت کرتے دیکھی؟ کبھی ہم نے کسی مند ر کو گرا کر اس پر مسجد تعمیر کی؟ اگر کی بھی ہوگی تو اس میں نہ کبھی ریاست نے حوصلہ افزائی کی اور نہ ہی پاکستان کی اکثریت عوام نے۔ ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ ہم کسی مندر کو گرائیں اور پھر ہمارا پورا معاشرہ، صدر اور وزیر اعظم سے لے کر میڈیا نمائندگان تک اس کو جشن کے طور پر پیش کرے۔ حتی کہ سارے مل کر اس جگہ مسجد قائم کریں۔

لیکن ہود بھائی جیسے کالم نگاروں کو بھارت کی کوئی برائی بھی بیان کرنی ہو تو پاکستان کو بیچ میں ضرور گھسیٹ لائیں گے۔ کیونکہ اس ملک کی برائی کرنے میں ایس لذت پائی جاتی ہے کہ کچھ لوگوں نے اسے اپنا پیشہ بنا لیا ہے۔ اور برائی جھوٹی بھی ہو تو اسے پھیلایا جاتا ہے۔

کالم میں ہود بھائی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ ہندوتوا کا خوف حقیقی ہے اور وہ بھارت میں اپنی جڑیں مضبوط کیے جارہا ہے، لیکن پھر اپنے تضاد بھرے مضمون میں لکھتے ہیں کہ 1937ء کے انتخابات میں شکست کے بعد مسلم لیگ نے دین کو استعمال کیا مسلمانوں کو یکجا کرنے کے لیے۔ یعنی ہندوتوا کا خطرہ حقیقی ہے، لیکن اگر مسلم لیگ اس سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو دین کے ذریعے متحد کرتی ہے الگ ملک بنانے کے لیے تو یہ "رلیجن کارڈ" استعمال کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ یعنی آپ کو کوئی حق نہیں کہ بیماری ہے تو اس کے خلاف علاج کے لیے کچھ کریں۔ ان بے شرموں کو اپنے لکھے میں کوئی تضاد ہی نظر نہیں آتا۔

یعنی رام مندر کی تعمیر، جو اتنے سال پہلے پیش کیے دو قومی نظریے کو نقطہ عروج پر پہنچاتی ہے، جس بات پر ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ دیکھو ہماری پوری تاریخ میں ہم نے کہیں بھی مندر گرا کر ادھر مسجد تعمیر نہیں کی، کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم یا صدر نے ایسے کام کو جشن کا موقع نہیں بنایا، اس بات کو بھی بطور پاکستانی نظریے اور پاکستان ریاست کے خلاف تنقید کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ واہ!

2002ء کے گجرات فسادات میں ایک خاتون بلقیس بانو کو گیارہ درندے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔ اب یاد رہے وہ سارے ہندو تھے۔ نہ صرف وہ اس خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ اس کے گھر کے افراد کو بھی شہید کرتے ہیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ وہ خاتون حاملہ تھی، اس کے پیٹ میں ایک بچہ پل رہا تھا۔ لیکن بے شرم درندوں نے اس بات کا خیال بھی نہ کیا اور وہ گیارہ کتے اس خاتون پر چڑھ دوڑے۔ 2022ء میں گجرات حکومت انہیں رہا کرتی ہے اور وہ سارے جب عدالت سے باہر آتے ہیں تو ان کا "سواگت" مٹھائی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

مجھے پوری پاکستان کی تاریخ میں سے کوئی ایک واقعہ اس طرز کا پیش کریں۔ کبھی ایسا ہوا کہ جن انتہا پسندوں نے کسی ہندو لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا ہو، انہیں رہا بھی کیا جاتا ہو اور ان کی رہائی پر انہیں مٹھائی پیش کی جاتی ہو لوگوں کی جانب سے؟

یہی نہیں بلکہ ایک "بُلی بائی" ایپ بھی موجود ہے جس میں مسلمان خواتین کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ اور یہ تو چند گھناؤنی کہانیاں ہیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ لیکن اس قسم کی کوئی بھی مثال آپ کو پاکستان میں نظر نہیں آئے گی۔

بھارت نے بڑی چالاکی سے پاکستان کے اندر، لیاقت علی خان کے بقول، "کتے" نصب کیے ہیں، جو دن رات ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہم کتنے پیچھے ہیں۔ جب حالات بگڑجائیں تو یہ کتے ہمیں خوفناک پیشن گوئیوں کے ذریعے ڈراتے ہیں۔ دن رات پاکستان کے تباہ ہونے کی خبریں پھیلاتے ہیں۔ اس ساری کاروائی کا مقصد صرف ایک ہے: ملک کے لوگوں میں اس قدر منفی خبریں پھیلائی جائیں، اس قدر انہیں اپنے ملک اور اس کے نظریے اور قیام سے متنفر کیا جائے، کہ کسی نہ کسی وقت پاکستان اور اس کے لوگ خود ہی اپنے ملک کو تباہ کریں۔

جن حالات سے پاکستان آج دو چار ہے، دوسرے ممالک اس سے بھی کئی گنا زیادہ بد تر حالات کا شکار رہے ہیں۔ لیکن وہاں لوگوں نے ایک دوسرے میں مایوسی پھیلانے کے بجائے ملک کی تعمیر اور ترقی میں کردار ادا کیا۔ اپنی منفی باتوں کو پکڑ کر اپنے ہی خلاف منفی مہم نہیں چلائی جس سے ان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ لیکن ہمارا دھیان زیادہ تر تعمیر اور ترقی میں کم، احتجاج اور دھرنوں اور توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں زیادہ صرف ہورہا ہے۔

یہ "دشمنوں کے کتے" ہیں اس پر کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ آج ان "کتوں"نے ملک کی افواج اور قومی سلامتی کے اداروں کو اپنا نشانہ بنا لیا ہے۔ دن رات ملک کی فوج کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں، تاکہ اگلی نسل میں ملک کی فوج کے خلاف نفرت پھیلائی جائے۔ یہ فوج کی سیاست میں مداخلت کا ذکر کرتے ہیں، ساتھ ساتھ ان تین جرنیلوں کی برائیاں بھی کرتے ہیں جنہوں نے براہ راست پاکستان پر حکومت کی، لیکن کبھی دوسرا نقطہ نظر پیش نہیں کرتے۔

ہماری فوج میں بھی انسان بستے ہیں، اس میں بے شمار برائیاں ہونگی، کئی ماضی اور حال کی غلطیوں میں فوج شریک رہی۔ لیکن کیا فوج نے صرف منفی کردار ادا کیا؟ پاکستان کے قیام کے وقت سے سیاستدانوں نے خود امن و امان قائم کرنے کے لیے فوج کو شہروں میں بلایا، عمران خان جیسے سیاستدان خود مانتے ہیں کہ وہ اتنے نااہل ہیں کہ انہیں بجٹ منظور کرانے کے لیے فوج کی ضرورت پڑتی تھی، سندھ میں ڈاکو راج ہو تو فوج آئے، سیلاب ہو تو فوج آئے، شمالی علاقوں میں معاملات بگڑیں تو فوج آپریشن کرے، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہو تو فوج اور رینجر ز کو بلایا جاتا ہے، پھر بھی یہی فوج ان "کتوں" کے نشانے پر ہے۔

ملک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہو تو فوج کردار ادا کرتی ہے، دوست ممالک سے مالی اور خارجی تعاون کے پیچھے فوج ہے، آج ملک میں"ایس آئی ایف سی" کے زیر سایہ سرمایہ کاری کے پیچھے فوج ہے، ملک میں بھارت جہاز داخل کرے تو پاک فضایہ اسے صحیح ٹھکانے پر لاتی ہے، قطر میں ورلڈ کپ ہو تو پاکستانی فوج وہاں تحفظ فراہم کرتی ہے اور ملک کا نام روشن کرتی ہے (کوئی دوسرا ہمارے ملک کا قومی ادارہ عالمی سطع پر پاکستان کی جانب سے خدمات پیش کرتا نظر آرہا ہے فوج کے علاوہ؟)، عالمی مشقیں ہوں وہاں فوج نام روشن کرکے آتی ہے، دنیا کی سات بڑی فوجوں میں پاکستان کی فوج کا شمار ہوتا ہے (باقی پاکستان کے تمام ادارے دنیا کے دس بیس بدترین اداروں میں شمار ہوتے ہیں)، نیوکلئیر سیکورٹی انڈیکس میں پاکستان ایران اور بھار ت سے زیادہ اچھی کارکردگی دکھاتا ہے کیونکہ فوج ہمارے جوہری اثاثے دیکھتی ہے، ملک کا اگر کوئی ادارہ ہے جہاں اوپر سے نیچے تک ایک ربط پایا جاتا ہے، نظم و ضبط پایا جاتا ہے، تو وہ فوج ہے، تاجر برادری ملک کی معاشی حالت سے پریشان ہو تو وہ فوج کو چیختی ہے۔۔ کیا یہ ساری اچھائیاں نظر انداز کردینی چاہییں؟

یہ فوج کے خلاف بولنے والے یہ جانتے ہی نہیں کہ فوجی حکومتوں میں ہی پاکستانی معاشرے نے ترقی کی ہے۔

ایوب دور کے کامیاب منصوبے آج بھی پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ مغربی اخبارات اور جرائد میں ایوب خان کو پاکستان کا "ڈی گال"(فرانس کے صدر جنہوں نے دوسری جنگ عزیم کے بعد فرانس کی ترقی کو بحال کیا) کہا جاتا تھا۔ اس وقت پاکستان نے اپنے پانچ سالہ منصوبے کے اہداف نہ صرف مکمل کیے بلکہ تجاوز بھی کیا—جی ہاں! اہداف سے بھی زیادہ حاصل کیا۔ (یاد رہے یہ پاکستان کا واحد پانچ سالہ منصوبہ تھا جس نے اپنے اہداف حاصل کیے، اس سے پہلے اور اس کے بعد کسی بھی پانچ سالہ منصوبے نے کامیابی نہیں دیکھی۔) پاکستان اس وقت سنگاپور اور دبئی جیسے ملکوں کو اپنی خدمات فراہم کر رہا تھا۔ جمشید مارکر صاحب، جو دنیا کے اور پاکستان کے طویل ترین خدمات فراہم کرنے والے سفیر ہیں، اپنی کتاب "کوور پوئنٹ" (صفحہ 54) میں لکھتے ہیں کہ ایک بار جنوبی کوریا کے نائب وزیر خزانہ نے انہیں بتایا کہ ایوب دور میں پاکستان ان کے ملک کے لیے ایک مثال تھا۔ پی ٹی وی بھی ایوب دور میں پاکستان میں وجود میں آیا۔ پاکستان "ایشین ٹائگر"کہلانے لگا تھا اس دور میں۔ جی ہاں!

اسی طرح ضیاء الحق کے دور کے بارے میں ناقدین بھی فرماتے ہیں کہ وہ دور کم از کم معاشی حوالے سے بھٹو دور سے کئی گنا زیادہ بہتر تھا۔ بلوچستان کے اندر جو باغی بلوچ سردار تھے ان کے ساتھ ضیاء الحق نے کامیاب مذاکرات کے ذریعے بلوچستان کے بحران پر مرہم رکھا۔ اس کے برعکس بھٹو دور میں بلوچستان میں گورنر راج لگایا گیا۔ وہاں فوج کو بھیجا گیا۔ بلوچ رہنماؤں کو قید خانے ڈالا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھٹو نے جو معیشت کا جنازہ نکالا، وہ آپ پاکستان کے کسی بھی ماہر معاشیات سے پوچھیں وہ آپ کو بتا دے گا۔ اس وقت ملک کی نجی ملکیتوں کو قومیا لیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک کے اندر سرمایہ کار آتے ڈرتے ہیں۔ کئی اچھے بھلے نجی ادارے سرکاری اداروں میں تبدیل کردیے گئے جس سے معیشت کا ستیا ناس ہوگیا۔ کئی پرانےزبردست تعلیمی اور مالی ادارے سرکاری ادارے میں تبدیل ہوکر تباہ حال ہوئے۔

مشرف دور میں انٹرنیٹ، ٹیلی کام اور ٹی وی چینلز اور آئی ٹی نے جو ترقی دیکھی اس کا فائدہ آج تک پاکستان حاصل کر رہا ہے۔ جمہوری حکمرانوں کو کیوں آزاد میڈیا اور نجی چینلز کے بارے میں سوچ نہ آئی؟ یہ آمریت میں ٹی وی چینلز کو کیوں سندیں ملیں اپنی نشریات چلانے کے لیے؟

اس سب کے باوجود آج فوج سے بڑی تکلیف ہے کچھ لوگوں کو۔ جبکہ یہ وہ ادارہ ہے جو سب کے لیے کھلا ہے۔ کوئی بھی فوج میں بھرتی ہوسکتا ہے۔ ایک نہیں تین تین مواقع فراہم کیے جاتے ہیں امیدواروں کو۔ ملک کے طول و عرض سے داخلے کے لیے عرضیاں لی جاتی ہیں۔ ہر عرضی پیش کرنے والے کو امتحان میں موقع دیا جاتا ہے۔ بس آپ فوج کے معیار پر پورا اتریں، فوج آپ کو لے لے گی۔ لیکن امتحان مشکل ہوتا ہے، پھر نوکری میں جلد ترقی نہ ہو تو جلد ریٹائیر ہوجاتے ہیں، لیکن قابل بندہ فوج میں پہنچ بھی جاتا ہے— چاہے اس کا اشرافیہ سے کوئی بھی تعلق نہ ہو، ہمارے موجودہ اور ماضی کے کئی سپہ سالار وں کا تعلق اشرافیہ سے نہیں تھا/ہے، ایوب خان، موسی خان، ضیاءالحق۔۔ یہ سب غریب گھرانوں سےتعلق رکھتے تھے— ساتھ ساتھ قابل بندہ ترقی کی راہ طے کرتے ہوئے ملک کے اس طاقتور ادارے کی سربراہی پر بھی پہنچ جاتا ہے۔

لیکن اس کے برعکس سیاستدانوں کا معاملہ دیکھ لیجیے۔ ایوب خان کی کابینہ کے وزیر ذولفقار علی بھٹو اپنی علیحدہ جماعت بناتے ہیں، ان کی کئی نسلیں پاکستان پر حکومت کرتی ہیں۔ حمزہ شہباز، مریم نواز، بلاول بھٹو، مونس الہی، مہر بانو قریشی۔۔ یہ سارے سیاستدان کس قابلیت کی بنیاد پر بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں؟ کیا کوئی عام بندہ پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی پی میں فوج کے ایک افسر کی طرح بھرتی ہوسکتا ہے؟ کیا فوج میں جس طرح ترقی کرکے آپ جرنیل بن سکتے ہیں، ان سیاسی جماعتوں میں آپ وزیر اعلی یا وزیر اعظم کے امیدوار بن سکتے ہیں؟ جواب سب کو پتہ ہے۔

ایک طرف فوج ہے، جس میں کوئی بھی، امیر ہو یا غریب، کالا ہو یا گورا، بھرتی ہوسکتا ہے۔ بس معایر پر پورے اتریں اور کارکردگی دکھائیں۔ ایسے ادارے کے ہاتھ میں ملک ہے تو ہمیں تکلیف ہورہی ہے۔ بہت تکلیف ہورہی ہے۔ جبکہ یہ بات تو خوشی کی ہےکہ یہ ادارہ، جو کسی خاندان یا فرد کی اجارہ داری سے پاک ہے، جس میں کوئی بھی قابل بندہ داخل ہوسکتا ہے اور ترقی پاسکتا ہے، پاکستان کے فیصلہ سازی پر قابض ہے۔

لیکن جاہل پاکستانی قوم ایک ایسے شخص کے لیے فوج سے نفرت کر رہی ہے جو شیخ رشید کو شیدا ٹلی بلاتا ہے، کہتا ہے میں اسے چپراسی بھی نہ رکھوں اور بعد میں اسے وزیر داخلہ بنا دیتا ہے، پرویز الہی کو پنجاب کاسب سے بڑا ڈاکو کہتا ہے اور بعد میں اسے راتوں رات پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بناتا ہے، حتی کہ وزیر اعلی بنا لیتا ہے اُسی صوبے کا جس کا وہ سب سے بڑا ڈاکو ہے۔ کہتا ہے میں میرٹ (قابلیت) پر عہدے دوں گا اور وہ عثمان بزدار کو ملک کا سب سے بڑا اور طاقتور، اہم صوبہ دے دیتا ہے۔

آپ کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ "کتے" آج بھی اسی دور کی طرح ملک کی تباہی کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں، ملک کے بارے میں بدگمانیاں پھیلا رہےہیں، دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، اور ساتھ ساتھ پاکستان کے واحد کامیاب ادارے پر تنقید کر رہے ہیں اور اس پر لفظی گولہ باری کر رہے ہیں، جس ادارے کی عدم موجودگی پر ملک ٹوٹ جائے گا، ختم ہوجائےگا۔ لیکن لوگ ہیں کہ آج ان "کتوں" کو اپنا نجاب دہندہ سمجھتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ٹھیک ہیں۔ ان گھٹیا لوگوں کی وڈیوز اور تبصرے اور نعروں پر واہ واہ کی جاتی ہے۔

عقل مند کے لیے دو جمع دو چار کی طرح عیاں ہے یہ بات کہ یہ پاکستان کی فوج اور اس کے قومی سلامتی کے اداروں پر حملہ کیوں کر رہے ہیں۔ کیوں جعلی خبروں اور معلومات کے ذریعے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کرکے ملک میں مایوسی پھیلا رہے ہیں اور فوج کے خلاف لوگوں کو متنفر کر رہے ہیں۔

پرویز مشرف صاحب نے بالکل ٹھیک کہا تھا: "پاکستان کا اللہ ہی حافظ! "کیونکہ عوام کے دلوں میں وہ مرض داخل کردیا گیا ہے جو آگے جاکر پاکستان کو مکمل تباہ کردیگا۔ ہم جب بڑے ہو رہے تھے تب ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی فوجی تنصیبات اور یاد گار شہدا پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ ایک دہشت تھی فوج کے حوالے سے۔ آج وہ نوجوان جنہوں نے کچھ دیکھا بھی نہیں، وہ فوج کے خلاف ایسی ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔

جاتے جاتے میں ایک موازنہ پیش کرنا چاہوں گا: موجودہ سپہ سالار، جنرل عاصم منیر نے فوج کی نوکری کے دوران قرآن پاک حفظ کیا اور دوسری طرف عمران خان ہیں جو کہتے ہیں کہ جیل نے انہیں قرآن کا مطالعہ کرنے کا موقع دیا۔ کون صحیح ہے اور کون غلط، ترجیحات اور مصروفیات سے ہی پتہ چل گیا۔ دھرنے دینے کے لیے وقت ہے، گالیاں دینے کے لیے وقت ہے، الزامات کے لیے وقت ہے، فتنہ پھیلانے کے لیے وقت ہے، لیکن قرآن ترجیحات میں تب آیا جب جیل نصیب ہوئی۔ ایسا بندہ ہمارا مقبول رہنما ہے۔ ٹھیک ہی کہا مشرف صاحب نے:

پاکستان کا اللہ ہی حافظ!

Check Also

Maa Ji

By Naveed Khalid Tarar