Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Dastan e U Turns

Dastan e U Turns

داستانِ یوٹرنز

مورخہ 28 نومبر، 2020ء کو عمران خان کا ایک انٹرویو نشر ہوتا ہے جو منصور علی خان نے لیا۔ دوران انٹرویو منصور علی خان ان سے پوچھتے ہیں:

"تو آپ کی کوئی ایک ایسی کوئی چیز ہوگی جس میں آپ نے فوج کو رزسٹ کیا ہو کہ نہیں۔۔ یہ نہیں ہوگا۔ کوئی ایسی چیز ہے پچھلے ڈھائی سال میں؟"

تو یہی عمران خان کہنے لگے:

"دیکھیں منصور!فوج کو میں رزسٹ تو تب کروں جب فوج میرے اوپر کوئی پریشر ڈالے"۔

منصور علی خان کہتے ہیں:

"اچھا؟"

پھر موصوف فرمانے لگے:

"تب رزسٹ کروں۔ مجھے ایک چیز آج تک فوج نے نہیں کہی کہ جو میں کرنا چاہتا تھا اور وہ کہیں یہ نہ کرو تو یہ کرو۔ ایک ایسی چیز نہیں ہے۔ ساری فارن پالیسی۔ میرا منشور اٹھا کر دیکھ لیں، ساری فارن پالیسی تحریک انصاف کی ہے"۔

یاد رہے یہ وہی شخص ہے، جو آج کہتا ہے میں جنرل باجوہ سے کہتا تھا کہ بدعنوانی بری چیز ہے اور وہ مجھے معیشت پر توجہ دینے کا درس دیتے تھے۔ اس وقت موصوف دوران انٹرویو کہہ رہے ہیں کہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس پر فوج اور میرے درمیان کوئی تنازعہ کھڑا ہوا ہو۔

بات یہاں آکر نہیں رکتی، یہ وہی شخص ہے، جو اقتدار سے پہلے یہ کہتا تھا۔ غور سے موصوف کے الفاظ سنیے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو اپنے ہی لفظو ں میں نااہل کرچکے ہیں۔ 2012ء میں مہر بخاری نے عمران خان کا انٹرویو لیا تھا جو 7 جون کو نشر ہوا تھا۔ اس انٹرویو میں عمران خان نے یہ کلمات ادا کیے تھے۔ غور سے سنیے:

"اگر تحریک انصاف کی گورنمنٹ آئی، یہ میں کبھی آپ کے سامنے ایکسکیوز نہیں کروں گا: جی میں بے بس ہوں۔ دیکھیں جی فوج کچھ کرنے نہیں دے رہی۔ یہ تو کوئی بہانا نہیں ہے۔ اگر فوج نہیں کرنے دے رہی میں انکومپیٹینٹ ہوں۔ اس کا مطلب میں ڈیزرو ہی نہیں کرتا پرائم منسٹر بننے کا۔ اگر میرا کوئی راستہ روکے گا۔ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں عوام کے پاس واپس جاؤں گا"۔

ایک طرف یہ بیان رکھیں، اور دوسری جانب وہ انٹرویو ملاحظہ کریں جو دسمبر 10، 2022ء کو انہوں نے جمیل فاروقی کو دیا۔ اس انٹرویو میں عمران خان نے فرمایا:

"نیب ان کے (یعنی جنرل باجوہ کے)نیچے تھی"۔

جس پر جمیل فاروقی ان سے دریافت کرتے ہیں:

"ان کے نیچے تھی؟ آپ کو کام نہیں کرنے دے رہے تھے؟"

عمران خان جواب دیتے ہیں:

"نیب ان کے نیچے تھی اور نیب نے ہمارے دور میں۔۔ ہم کوشش کرتے رہے، زور لگاتے گئے، لیکن۔۔ کیونکہ ان کے کنڑول میں تھی، یہ فیصلہ کرتے تھے: کس نے اندر جانا ہے، کس نے باہر نکلنا ہے۔ ہمارے تو ہاتھ میں ہی نہیں تھا"۔

جس پر جمیل فاروقی ان سے پوچھتے ہیں:

"ان کو (یعنی موجودہ حکمرانوں کو)جو کیسسز میں ریلیف ملا ہے، جنرل باجوہ کے کنسینٹ سے ملا ہے۔ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں؟"

عمران کان کہتے ہیں:

"پاور کس کے پاس تھی؟ جن کے پاس پاور تھی انہوں نے ہی ریلاف دلانا تھا نا۔ ہمارے پاس تو پاور تھی ہی نہیں"۔

سوچیں، اقتدار پانے سے پہلے انہوں نے مہر بخاری کے انٹرویو میں کہا کہ میں کبھی یہ بہانہ نہیں دوں گا کہ فوج کچھ کرنے نہیں دے رہی، ان کے پاس طاقت ہے۔ اگر کام نہ کرنے دیا تو میں اقتدار چھوڑ دوں گا۔ جبکہ فاروقی صاحب کے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ احتساب سے متعلق محکمہ ہی میرے زیر نگرانی نہیں تھا۔ اور احتساب کرنے کے لیے تو یہ حکومت میں آئے تھے۔ جس چیز کے لیے آپ نے حکومت لی، وہ آپ کے ہاتھ میں تھی ہی نہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے، آپ نے ساڑھے تین سال بر سرِاقتدار رہنا گوارا کیوں کیا؟ آپ نے تو کہا تھا نا کہ مجھے کام نہیں کرنے دیا گیا تو میں حکومت چھوڑ دوں گا۔ کیوں نہیں حکومت چھوڑی؟ آپ کو عوام میں واپس جانا چاہیے تھا۔ لیکن آپ تو آخری وقت تک وزیر اعظم کی رہاش گاہ میں رہے۔ جب کہ آپ کو معلوم تھا کہ اسمبلی آپ کو فارغ کرنے والی ہے۔ آپ نے ہر ممکن حربہ استعمال کیا حکومت سے چمٹے رہنے کے لیے۔

آج آپ ڈی جی آئی ایس پی آرکو تڑیاں لگا رہے ہیں کہ جب تم پیدا بھی نہیں ہوے تھے تب سے میں ملک کا نام روشن کر رہا ہوں۔ اور پی ٹی آئی کے مدد گاروں کا پیغام سوشل میڈیا پہ گردش کر رہا ہے کہ دیکھیں جی ملک کا نام روشن کرنے والے عمران خان کے ساتھ کیا سلو ک کیا جارہا ہے۔ دیکھیں کہ وہ کتنا ملک کا نام روشن کر رہے تھے؟ 1984ء میں عمران خان پر ایک دستاویزی فلم بنی تھی "60 منٹز آسٹریلیا" پروگرام کی جانب سے۔ اس دستاویزی فلم کے ابتدا میں عمران خان کے بارے میں یہ کلمات کہے جاتے ہیں۔ غور سے سنیے پاکستان کا نام روشن کرنے والے شخص کے بارے میں کیا کہا جارہا ہے:

"اگر آپ کرکٹ سے بے زار ہیں یا اس میں دلچسپی نہیں رکھتے تو دیکھتے رہیے۔ کیونکہ یہ کرکٹ کی کہانی نہیں۔ بلکہ (یہ کہانی) ایک امیر اور شاید بگڑے ہوئے نوجوان لڑکے کی ہے جو اب تک دو دنیاؤں کے بہترین مزے لے رہا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں تمام کرکٹ کے ابھرنے والے ستاروں میں سے، عمران خان شاید اس قسم کے شو بزنس ہائپ کی بہترین نمائندگی کرتے ہیں جو اب کھیل کو چاہے برے یا اچھے کے لیے گھیرے ہوئے ہے۔ انگلستان اور اسٹریلیا میں اس نے اتنی ہی پریس کو متوجہ کیا ہے جتنا ایک سیکس سمبل کرتا ہے۔۔ جو کہ ستم ظریفی (کی بات) ہے کیونکہ وہ دنیا کے قدامت پرست ترین ملک سے تعلق رکھتا ہے"۔

سبحان اللہ!کتنا نام روشن کیا عمران خان نے، وہ ایک سیکس سمبل ہیں۔ وہ ایک امیر اور بگڑے ہوئے نوجوان ہیں۔ کیایہ ایک ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو اپنے ملک کا نام روشن کرتا ہے؟ یہ ذہن میں رہے کہ تمہید میں کہیں بھی عمران خان کی کرکٹ سے وابستہ صلاحیتوں کا ذکر نہیں۔ جس سے خوب جانا جاسکتا ہے کہ وہ دنیا میں کس چیز سے پاکستان کا نام روشن کر رہے تھے۔

پھر ایک دوسرا جھوٹ بھی ہمیں بار بار سنایا جاتا ہے کہ جی عمران خان نے اپنی امیر بیوی کو اور بچوں کو چھوڑ یا وطن کی خاطر۔ ورنہ ان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ خان انہیں لندن لے جانا چاہتی تھیں۔ اگر وہ مان جاتے تو شادی بچا لیتے۔ اور صرف یہ ہی نہیں، بلکہ جمائمہ نے تو انہیں وہاں دولت اور کاروبار کی بھی پیش کش کی۔ لیکن غیرت مند عمران خان نے وطن کی خاطر یہ سب قربان کرنے کو ترجیح دی۔ خیر، یہ سب جھوٹ ہے۔ اپنے مصدقہ ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے جمائمہ خان اس جھوٹ کی تردید کرچکی ہیں۔ ان کے بقول یہ ایک جھوٹا بیان ہے۔ آپ چاہیں تو خود انٹرنیٹ پر جاکر اس کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ (علی نواز صاحب ہیں جنہوں نے اپنی ٹوئیٹ میں عمران خان کی اس نام نہاد قربانی کا ذکر کیا تھا۔ اس پر جمائمہ خان نے اپنے تصدیق شدہ ٹوئیٹر خاطے سے اس بیان کے غلط ہونے کی تردید کی تھی۔)

ابھی میں اپنا یہ بیان قلم بند کر رہا تھا کہ پتہ چلا کہ عمران خان کی ایک اور آڈیو لیک سامنے آئی ہے۔ ایک تو میں اس محسن یا محسنوں کا شکر ادا کرنا چاہتا ہوں جو اس شخص کی اصلیت ظاہر کر رہے ہیں۔ جو بھی اس شخص کی آڈیوز کو لیک کر رہا ہے، وہ قوم کا محسن ہے۔ وہ ہماری اگلی نسل کے لیے اور موجودہ نسل کے لیے اس شخص کے اصل چہرے کو بے نقاب کر رہا ہے۔ مورخین ان آڈیوز اور وڈیوزکے لیک کرنے والوں کو سلام پیش کریں گے۔

خیر، حالیہ آڈیو لیک سے ظاہر ہورہا ہے کہ عمران کان امریکی کانگرس رکن میکسین واٹرز سے گفتگو کر رہے ہیں۔ کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ بے غیرت امریکی! تم نے میری حکومت گرائی؟ تمہاری لائی ہوئی"امپورٹڈ حکومت"نے ہمارا جینا مشکل کر دیا ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ منافق جو کل تک جلسے کر کرکے قوم کو گمراہ کر رہا تھا کہ میری حکومت امریکا نے سازش کرکے گرائی ہے، وہ اس امریکی کانگریس کے رکن سے کہتا ہے کہ میری حکومت سابق فوجی سپہ سالار نے گرائی اور پاکستان میں عسکری اسٹیبلیشمنٹ بہت مضبوط ہے اور ان کے باعث میں حکومت سے ہٹایا گیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہماری مدد کیجیے۔ ہمارے حق میں بیانیہ دیجیے۔ تاکہ ہماری تکالیف تھوڑی دور ہوں۔

سبحان اللہ! یہ وہ شخص ہے جو پچھلے سال کہتا تھا کہ ہم کوئی غلام ہیں؟ امریکا کون ہوتا ہے ہماری اندرونی سیاست پر کچھ کہنے والا؟ کہتا تھا کہ موجودہ حکومت کو لانے میں امریکا نے کردار ادا کیا۔ تو بھئی! اسی حکومت کے سہولت کاروں سے آپ مدد مانگ رہے ہیں؟ ابھی بھی جو لوگ اس ڈھونگی کو نہیں پہچانتے۔ جو اس کی منافقت اور غلط بیانی اور یوٹرنز سے واقت نہیں، ان کی اخلاقیات اور عقل کا اللہ ہی حافظ ہے۔

عمران خان شکایت کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت انہیں انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان سے معیشت نہیں سنبھالی جارہی۔

تو موصوف کی خدمت میں ہم عرض کردیں کہ یہی تو آپ کر رہے تھے۔ آپ اپنے معتدد جلسوں اور تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ جنرل باجوہ آپ کو معیشت پر توجہ دینے کا کہتے تھے جبکہ آپ احتساب چاہتے تھے۔ تو آج موجودہ حکومت اقتصادیات کے بجائے آپ کے احتساب کو ترجیح دے رہی ہے تو مرد بنیں۔ مقابلہ کریں۔ آپ کے نزدیک معیشت اہم نہیں، احتساب اہم ہے۔ تو آپ تھےنا ماضی کے حکمران۔ تو اب آپ کےاحتساب کا وقت آگیا ہے۔

دوسرا جہاں موجودہ حکومت آج کی اقتصادی حالت کی ذمے دار ہے، وہیں عمران خان نے بھی کوئی کم کردار ادا نہیں کیا معیشت کا جنازہ نکالنے میں۔

کون آخری وقت میں سبسڈی دے کر آئے ایم ایف کے معاہدے کو توڑ گیا؟ جس کی وجہ سے خزانے کو نقصان ہوا اور عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کی مدد کرنا بند کردی، جس کے نتیجے میں دوست ممالک نے بھی مدد کرنے سے انکار کردیا۔

کون ہے جو مسلسل ایک سال سے دھرنے اور احتجاج اور فساد برپا کرنے کی سیاست کر رہا ہے؟ جس کی وجہ سے کئی سرمایہ کار پاکستان نہیں آرہے۔ کون اس وقت آئے گا اپنا پیسہ لے کر اس ملک میں، جب اسے پتہ ہے کہ عمران خان ہر آئے دن جلسہ، دھرنہ، جلوس وغیرہ نکالتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے جاہل کارکنان رستے بند کر دیتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں، جلاؤ گھیراؤ کرتے ہیں۔ لانگ مارچ کی وجہ سے کتنی لاشیں گریں۔ ابھی جو 9 مئی کو ہوا وہ سب کےسامنے ہے۔ کون بھلا پاکستان میں سرمایہ لگائے گا جب ملک میں ایک سیاستدان اس قسم کے ماحول کو پروان چڑھائے گا۔

18 دسمبر 2022ء، اے آر وائے چینل کے پروگرام "دا ریپورٹرز" میں پرویز الہی کا انٹرویو نشر ہوا۔ اس انٹرویو میں پرویز الہی سے پوچھا گیا کہ "اس فیصلے کے بعد آپ ملکی سیاست کو کس طرف جاتا دیکھ رہے ہیں؟"آپ کو یاد ہوگا کہ دسمبر کے مہینے میں یہ اعلان کیا تھا عمران خان نےکہ وہ اپنی دو اسمبلیاں تحلیل کریں گے۔ لہذا اس فیصلے کے حوالے سے چوہدری صاحب سے یہ سوال کیا گیا۔ آپ پرویز الہی کا بیان سنیں۔ غور طلب بیان ہے۔ چوہدری صاحب نے کہا: "دیکھیں جی، ابھی تو کل ابتدا ہوئی ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا ایک ایشو، جھٹکا تمام سیاسی جماعتوں کے لیے، پی ڈی ایم کے لیے، اور پھر خاص طور پر ملک کے لیے بھی ہے۔ معیشت جو ہے ہماری پہلے ہی ڈوبی ہوئی ہے۔ اس سے اسٹاک ایکسچینچ بھی نیچے جائے گا جب کھلے گا کل۔ تو بہت سارے اثرات ہونگے۔ "لہذا عمران خان کے اپنے ساتھی بھی مان رہے ہیں کہ جب انہوں نےاسمبلی تحلیل کی، وہ بھی معیشت کے لیے برا فیصلہ تھا۔

اس بندے کی سارے اصلیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ لیکن جاہلین کی آنکھیں بند ہیں۔ اللہ ہی ہمارا حافظ ہے، اگر یہ ہمارا مقبول رہنما رہا اور مستقبل کا وزیر اعظم۔

Check Also

Lawrence Of Arabia

By Rauf Klasra