Aurat Ka Mujrim Kon?
عورت کا مجرم کون؟
آپ سب کو معلوم ہوگا، آج کے دور میں حقوق نسواں نے تقریباً ایک دین یا مذہب کا روپ دھار لیا ہے۔ باتیں ہی کچھ اس طرز پر کی جاتی ہیں کہ "اجی!دیکھیں، فلاں میدان میں خواتین دور دور تک نظر نہیں آرہیں۔ ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے"۔ صرف یہ ہی نہیں کہ عورتوں کی شمولیت کو مختلف میدانوں میں یقینی بنایا جائے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ ہر حوالے سے مرد اور عورت کو برابر کردیں۔
اسی جذبے کے پیش نظر، عورتوں سے کہا گیا کہ "جی!یہ پردہ شردہ چھوڑیں۔ اسے اٹھا باہر پھینکیں"۔ عورتوں کو کہا گیا کہ اگر آپ باہر نہیں نکلیں گی، مردوں کے شانہ بہ شانہ نہیں چلیں گی، مر د ہر میدان پر قابض ہوجائے گا۔ گویا عورت کو یہ سکھایا گیا کہ مرد تمہارا دشمن ہے۔ اس نے کبھی پردے کو وجہ بنا کر، کبھی غیرت اور عزت کا جواز پیش کرکے تمہیں چار دیواری میں بند کیا، اٹھو، باہر نکلو، تعلیم حاصل کرو، نوکری حاصل کرو، اپنا بینک کا کھاتہ اس قدر بھرو کہ کل اگر شوہر سے علیحدگی ہو تو تم اس کی محتاج نہ بنی پھرو۔
جہاں تک عورت کی تعلیم اور روزگار کی بات ہے، اچھے مرد کہیں بھی عورتوں پر اس حوالے سے پابندی نہیں لگاتے۔ دینی لوگ، پردے کے قائل لوگ، یا یوں کہہ لیں کہ مذبہت اسلام سے جڑے لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ عورت بے شک تعلیم حاصل کرے، روزی کمائے، لیکن عورتوں کے درمیان۔ مردوں کے درمیان نہ بٹھائیں عورتوں کو۔ یہ بنیادی استدعا ہے دینی لوگوں کی۔ جب عورتوں کو ترغیب دی جارہی تھی کہ باہر نکلو، مردوں کے درمیان رہ کر کام کرو، تب دینی علماء، یا جنہیں ہم پتھر کے دور کےلوگ کہتے ہیں، کہہ رہے تھے کہ "خدا کا واسطہ!ایسا نہ کرو۔ اس سے عورت کو ہی نقصان ہوگا۔ اس کی عزت و آبرو نیلام ہوجائے گی"۔ اور یہی ہوا۔
عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات ہم آئے روز ٹی وی پر دیکھتے ہیں اور اخبارات اور جرائد سے ان واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں نے عورتوں کو باہر نکالا، وہ اب چیخ رہے ہیں: "تم مردوں نے عورت کا گھر سے نکلنا، اس کا جینا حرام کردیا ہے"۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ "دیکھیں ہم نے تو کہا تھا ایسا ہوگا"۔ تو وہ کہتے ہیں:"یار!آپ لوگ کیا کہیں آپ کو۔ دوسرے ملکوں میں جاؤ۔ دیکھو وہاں عورتیں کس قدر تنگ اور چھوٹے کپڑے پہنتی ہیں۔ چند حصے جسم کے برائے نام ڈھکے جاتے ہیں، کپڑا جسم سے چپک کر بیٹھا ہوتا ہے۔ ساحلِ سمند عورتیں نیم برہنہ گھومتی ہیں، دفتر جاتی ہیں، رات کو بار میں نشے میں دھت رہتی ہیں۔ لیکن مجال ہے کوئی انہیں زیادتی کا نشانہ بنائے۔ یہ تو آپ کا گھٹن زدہ معاشرہ ہے۔ مردوں کی گرمی پھر یوں باہر آتی ہے۔ آپ معاشرے کو آزاد تو چھوڑیں"۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں :"ہاں!دیکھو ناوہاں بچپن سے لڑکا عورتوں کو اس قدربے پردہ دیکھتا ہے، لہذا اس کی شہوت قابو میں رہتی ہے۔ اور اگر شہوت اس پہ غالب آ بھی جائے تو اس کے لیے مختلف راستے کھلے ہیں۔ چاہے اپنی ماشوقہ سے منہ کالا کرائے یا جسم فروش سے، اس کا کام تو ہو جاتا ہے۔ بس حمل واقع نہ ہو۔ باقی سب خیر ہے۔ یوں وہاں گھٹن نہیں رہتی۔ عورت محفوط رہتی ہے۔ آہ ہا ہا!ایسا معاشرہ بناؤ نا یار۔ یہ کیا عورت اور مرد کو علیحدہ رکھتے ہو تم لوگ۔ عورت کو ڈکھتے ہو، مرد کو اس سے الگ رکھتے ہو، شادی تک اپنے ارادوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہو"۔
اگر یہ بات درست ہے تو مجھے بتائیں ہاروی وائنسٹائین نے کیوں کئی ہالی ووڈ کی اداکاراؤں اور اپنے دفتر میں کام کرنے والی بچیوں کو اپنی حوص کا نشانہ بنایا؟ وہ تو فلم پروڈیوسر تھا، بہت ہی مشہور۔ دولت دے کر کسی جسم فروش کی خدمات حاصل کرتا۔ اس نے تو مفتیوں کے بیان نہیں سنے تھے پردے کے۔ اس کا بچپن، لڑکپن، بڑھاپا، سب کچھ امریکا میں گزرا۔ وہ بھی نیو یارک جیسے روشن خیال شہر میں۔ پھر کیوں اس نے کئی خواتین کو حوص کا نشانہ بنایا؟
چارلی روز نے کیوں کئی خواتین صحافیوں سے بدسلوکی کی، انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا؟ وہ تو ایک اعلی پائے کا صحافی تھا۔ دولت بھی اس کی خاصی ہے۔ کیوں اس نے لڑکیوں کو نشانہ بنایا اپنے غلیظ ارادوں کا؟
لیری نصر نے کیوں کئی خواتین جمنیسٹس سے زیادتی کی؟ 265 عورتوں کو اس نے اپنی حوص کا نشانہ بنایا۔ وہ تو ڈاکٹر تھا امریکا کی خواتین کی جمنیسٹکس کی قومی ٹیم کا۔
یہ لوگ تو پڑھے لکھے تھے(اپنے شعبے میں عمدہ مہارت رکھنے والے اور ساتھ ساتھ نہایت ہی دولت مند اور کامیاب بھی)، امریکا میں پیدا ہوئے، وہاں کی بے پردہ فضاؤں میں انہوں نے سانس لی۔
پچھلے سال کی بات ہے۔ ایک لڑکے نے ٹرین میں ایک خاتون سے زیادتی کی، ٹرین کئی مقامات پر رکی، کسی نے اس بندے کو نہیں روکا۔ الٹا لوگوں نے اپنی سمارٹ فون نکال کر اس واقع کو وڈیو رکارڈر سےمحفوظ کرنا شروع کیا۔
اسی طرح پچھلے سال ایک اسکول کا واقع سامنے آیا، ایک لڑکے نے لڑکیوں کی بیت الخلا میں داخل ہو کر ایک بچی کے ساتھ زیادتی کی۔ لڑکی کے والد نے احتجاج کیا، لیکن اس بیچارے کو کیا معلوم تھا کہ اسکول نے ہی اس لڑکے کو لڑکیوں کے بیت الخلا جانے کی اجازت دی۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو ٹرانسجینڈر (یعنی ہیجڑا یا خواجہ سرا)کہلانے لگا تھا۔ اس نے اسکرٹ پہنی اور یہ کافی تھا اس کا لڑکی بننے کے لیے۔ اسکول انتظامیہ نے خاموشی سے اس بچے کو دوسرے اسکول منتقل کردیا۔ وہاں بھی اس خبیث نے کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی کی۔ پھر جاکے بات باہر آئی۔ لیکن حیرت ہوتی ہے۔ جس لڑکی کے ساتھ پہلے زیادتی ہوئی، اس کے والد نے جب ایک اجتماع میں احتجاج کیا تو اس کے خلاف پولیس کی کاروائی کی گئی۔ اس کی تصویر موجود ہے جس میں پولیس کے کارندےاس کا گھیراؤ کرکے بیٹھے ہیں اور وہ خون میں ڈوبا ہوا ہے۔
لیکن کمال ہے بھئی! عورتوں کے دوست وہ ہیں جو عورت کو بے پردہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ نہ کہ وہ دقیانوسی لوگ جو عورت کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ عورت عورتوں کے درمیان رہے، ان کے ساتھ مل کر تعلیم حاصل کرے، کمائے۔ گھر سے باہر جسم کو ڈھک کر جائے، اپنے محرم کے ساتھ نکلے، بے وجہ نہ نکلے، مردوں سے بے تکلف نہ ہو۔ عورتوں کے حق کی لڑائی تو ان کے ہاتھ میں ہے جو عورتوں کو پہلے مردوں کے درمیان داخل کرتے ہیں، پھر چیختے ہیں :"ہائے ہائے!عورت بیچاری"۔ دشمن تو ہم ہیں جو اسے پردے میں اور اپنی بہنوں اور سہیلیوں کے درمیان دیکھتا چاہتے ہیں۔
پچھلے سال آپ کو یاد ہوگا، ظاہر جعفر نامی لڑکے نے ایک لڑکی کو اپنے پاس بلایا۔ وہ لڑکی بغیر کسی محرم کے، بغیر کسی کو بتائے اس کے پاس گئی۔ پھر لڑکے نے اسے قید کیا اور عید کے قریب بڑی سفاکی کے ساتھ مار ڈالا۔ وہ کئی دنوں تک لڑکی کو تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔ آہنی مکے سے اس نے لڑکی کو مارا۔ لڑکی نے جان بچانے کے لیے چھت سے چھلانگ لگائی۔ لیکن لڑکا اسے پھر سے اندر لے گیا۔ سر کو دھڑ سے الگ کرکے اس نے لڑکی کی جان لی۔ پتہ یہ بھی چلا کہ لڑکے نے لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔ واقع کے بعد لوگ کہتے رہے کہ "کاش پولیس وقت پر پہنچتی، یا نوکر لوگ بروقت لڑکے کو روکتے تو بیچاری لڑکی بچ جاتی"۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ "کاش لڑکی کو پردے کی تعلیم دی جاتی تو وہ بغیر محرم کے گھر سے باہر نہ نکلتی اور اکیلے مرد سے نہ ملتی اور نتیجتاً وہ نہ ماری جاتی"۔