Amir Liaquat Aur Dua Zahra Asbaq Aur Tajzia
عامر لیاقت اور دعا زہرہ، اسباق اور تجزیہ
کیا کیا نہیں ہوتا اس دنیا میں۔ لوگ، موسم، معیشت کوئی بھی شے ایک جیسی نہیں رہتی وقت کے ساتھ۔ لیکن کچھ حقیقتیں زندگی کی ایسی ہیں، جو کبھی نہیں بدلتیں۔ چاہے آپ کچھ بھی کرلیں۔ کتنی بھی صدیاں پیچھے چلے جائیں، کچھ چیزوں کا معیارآپ کو ایک سا ملے گا۔ میں یہاں حالاتِ حاضرہ کی چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گا تاکہ اپنی بات کو مزید واضح کرسکوں۔
ابھی چند دنوں پہلے عامر لیاقت صاحب انتقال کرگئے۔ ان کی موت لوگوں پر بجلی کی طرح گری۔ ایک وقت تھا وہ بیک وقت تین تین عہدے سنبھالے ہوئے تھے۔ عامر بھائی رکن قومی اسمبلی بھی تھے، ساتھ ساتھ وزارت ِ مذہبی امور بھی ان کے سپرد تھی، اور وہ ایک بہت ہی مشہور ٹی وی پروگرام کے میزبان بھی تھے۔ وہ نعت خواں بھی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی نئے ٹی وی پروگرامز انہوں نے متعارف کرائے۔
ایک عام بندے کو اگر عامر لیاقت کی زندگی کا صرف یہ حصہ بیان کریں۔ جو عامر لیاقت کے بارے میں بالکل ناواقف ہو، تو اسے لگے گا کہ ایسا شخص تو بڑا خوش قسمت ہوگا۔ اچھی ریٹنگ حاصل کرنے والے میزبانوں کی آمدن کے بارے میں کون نہیں جانتا؟ پھر یہ بھی واضح ر ہے کہ ایک ایم این اے اور وزیر کی تنخواہ بھی کم چیز نہیں۔
اب جس شخص نے اقتدار، شہرت اور دولت کا مزہ چکھا ہو، وہ بھلا کیسے غمگیں ہوگا؟ لیکن اگر عامر لیاقت صاحب کےآخری وڈیو پیغامات کو ہم ملاحظہ کریں تو ہمیں لگےگا ہی نہیں کہ وہ کبھی کامیاب بھی تھے۔ بات یہ ہے کہ شہرت، دولت اور اقتدار گھر میں سب کچھ لا سکتا ہے۔ سکون اور اطمینان نہیں لاسکتا۔ اقتدار، دولت اور شہرت اعتماد کو نہیں پیدا کرسکتے۔
وجہ چاہے جو بھی ہو۔ عامر لیاقت صاحب کی غلطی تھی یا ان کی تین بیویوں کی کہ ان کی ازدواجی زندگی نہیں صحیح طرح پروان چڑھ سکی؟ ہم اس بحث میں پڑتے ہی نہیں۔ ہم یہ بھی نہیں بحث کرتے کہ کیا وہ اچھے انسان تھے یا نہیں؟ لیکن ان کے آخری وڈیو پیغامات اس بات کو روزِ روشن کی طرح عیاں کرتے ہیں کہ وہ اپنی تین ناکام شادیوں پر بہت غمزدہ تھے۔ تیسری شادی کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ معاملات اتنے بگڑے کہ وہ اس دنیا سے ہی بچھڑ گئے۔
چند سالوں پہلے میں ایک پاپ کارن والے کے پاس رکا، میری اہلیہ کو بہت پسند ہیں پاپ کارن لہذا میں نے سوچا گاڑی کو ایک جگہ پارک کرتا ہوں اور پاپ کارن لے آتا ہوں۔ وہاں پاپ کارن کے ٹھیلے کے قریب میں نے ایک منظر دیکھا جس نے مجھے حیران کردیا۔ ایک آدمی بہت ہی پرانی بائیک پر آیا اور اس نے پاپ کارن والے سے پاپ کارن مانگی۔
بائیک کی پچھلی نشست پر موصوف کی اہلیہ بیٹھی تھیں اور آگے ان کی بچی۔ تینوں جس قدر مسکرا رہے تھے اور خوش تھے میں اس کو یہاں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ بیگم اگر کچھ کہہ رہی ہیں تو شوہر مسکرا رہے ہیں۔ بچی کچھ کہہ رہی ہے تو والد اس کے ماتھے پر اپنا ہاتھ شفقت سے پھیر رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا وہ بندہ دس ہزار بھی کماتا ہوگا ماہانہ۔
وہ پاپ کارن والے کے پاس رکا تب وہ اسے کہہ رہا تھا خوشی خوشی کہ ہم ہوٹل تو نہیں جاسکتے، لیکن ہمارے لیے یہ ہی "آؤٹنگ "ہے۔ اس کی بچی اور اہلیہ بھی مطمئن نظر آئے۔ کہیں ماتھے پر ایسے آثار ظاہر نہیں ہورہے تھے کہ "کیا زندگی ہے ہماری۔ لوگ بڑی بڑی ہوٹلوں میں کھا رہے ہیں، اے سی والی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں اور ہم یہاں تھکی پرانی بائیک پر بیٹھے ہیں۔ ناں، ان کی خوشی دیکھ کر تو یوں لگا جیسے انہیں بادشاہت مل گئی ہو۔
وقت کتنا بھی بدل جائے۔ بھلے ایک جیسا نہ رہے۔ آ پ کے بچے اور بیوی مطمئن ہیں آپ سے، آپ کے آنے کا انتظار کرتے ہیں، اگر دیر ہوجائے آپ کو آنے میں تو ان کا منہ بن جاتا ہے، تو یہ شہادتیں ہیں رب کی جانب سے کہ آپ کامیاب ہو۔ یہی وجہ ہے کہ میرے پیارے نبی محمد مصطفیﷺنے اپنے آخری خطبے میں کہا تھا کہ تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ (ابن ماجہ، 1978؛سنن الترمذی، 1162)
دو مہینے پہلے کی بات ہے۔ خبر آئی کہ کراچی سے ایک بچی لاپتہ ہوگئی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بچی نے بھاگ کر شادی کرلی۔ بچی نے "پب جی " گیم پر کسی لڑکے سے دوستی کی، لڑکا لاہور کا تھا، لہذا لڑکی لاہور چلی گئی اور اس نے لڑکے سے شادی کرلی۔ والدین کہتے ہیں بچی کو قید کیا گیا ہے، وہ ہمارے ساتھ آنا چاہتی ہے۔ البتہ، لڑکی کے بیانات سے واضح ہورہا ہے کہ وہ لڑکے کو پسند کرتی ہے اور والدین سے نہیں ملنا چاہتی۔
ہم یہاں بھی صحیح غلط کی بحث میں نہیں پڑتے۔ لوگ بچی کو کہہ رہے ہیں کہ کیسی اولاد ہے، والدین کی عزت نیلام کردی، غیر کے خاطر ماں باپ کو چھوڑ دیا وغیرہ وغیرہ۔ کچھ کہہ رہے ہیں بچی کو حق حاصل ہے (قانون اور شریعت دونوں سے) کہ وہ جسے چاہے اپنا ہمسفر بنائے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ اپنے کسی عزیز کو، کسی چاہنے والے کو، جو آپ کے بہت قریب ہو، اسے چھوڑ کر اتنا دور جاسکتے ہیں؟
جن سے محبت ہوتی ہے انہیں آپ کبھی نہیں چھوڑ کر جاتے۔ جہاں محبت، پیار، اعتماد اور خلوص موجود نہ ہو وہاں بھاگنا آسان ہوجاتا ہے۔ لڑکی کے دل میں والدین کے لیے پیار ہوتا تووہ کبھی نہ بھاگتی، چاہے اسے لڑکا کتنا ہی پسند کیوں نہ ہوتا۔ اب محبت نہ ہونے کی کیا وجہ ہے، ہم نہیں جانتے۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب تب ہوتا ہے جب والدین اور بچوں کے درمیان فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ بچے والدین کی معقول بات نہیں سنتے اور بڑے بچوں کی جائز خواہشات کی تکمیل میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
اپنے بیوی بچوں کو اپنے قریب لائیں۔ شروع سے ان کے ساتھ وقت بتائیں، انہیں پیار دیں۔ اپنےمعاملات ان سے پوشیدہ نہ رکھیں۔ ان سے بات کریں۔ ان کے ہر جائز مطالبات کو تسلیم کریں، انہیں پورا کرنے کی بھر پور کوشش کریں۔ جہاں مطالبات غلط ہوں وہیں انہیں کہہ دیں یہ ممکن نہیں دلیلیں دیں۔ نہیں سنتے تو اس میں آپ کی غلطی نہیں پھر ان کی مرضی۔ آپ کسی کو رسی سے باندھ کر ساری زندگی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔