Hikmat e Ektesabiya
حکمت اکتسابیہ
حکمت اکتسابیہ انسانی معاشرے کی ترقی کےلیے ایک اہم منزل ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمت اللہ نے اس نظام معاش کی تعریف کچھ یوں کی ہے کہ انسان اپنی معاش میں رفاہیت اور ذوق حسن کا خیال رکھے اور کوشش کرے کہ انسان اپنی تمام ضروریات اوسط درجے کی رفاہیت سے پوری کرے۔ اگر یہ کوشش نہ کی جائے تو انسان سخت تکلیف اور رنج و غم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور اتنی حاجتیں جمع ہو جاتی ہیں کہ ایک انسان انہیں باطریق احسن پورا نہیں کر سکتا۔
کسی بھی معاشرے کے پھلنے پھولنے اور نشونما پانے میں تخصیص پیشہ کا انتہائی کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہر انسان اپنی تمام ضروریات اور احتیاجات کو خود پورا کرنے کی سکت و ہمت نہیں رکھتا۔ اس کا دوسرے انسان پر انحصار ایک طبعی عمل ہے۔ تخصیص پیشہ کو عمل میں لانے کے بعد ایک مضبوط سیاسی نظام کی ضرورت در پیش آتی ہے۔ اگر مختلف پیشوں کو ضابطے میں نہ لایا جائے تو یہ معاشرے کو تباہی کے دلدل میں پھینکنے کے مترادف ہے۔ مثلاً تمام لوگ صنعت وحرفت میں لگ جائیں، مویشیوں کی پروش یا پھر ذراعت کی طرف مائل ہو جائیں۔ یعنی ایک ہی دریاء میں سب مل کر چھلانگ لگا دیں۔ اس سے دوسرے پیشے کمزور پڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ صورت حال کی ایک اہم وجہ مضبوط سیاسی نظام کی عدم دستیابی ہے۔ کسی مخصوص نظام کے نا ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی سمت کا تعین کرنے سے قاصر ٹھہرے۔ جس کی چنداں مثالیں درج ذیل ہیں۔
اگر کھیتی باڑی کی بات کی جائے تو ایک سال جس فصل کو اچھی بولی لگے، اگلے سال سارے کسان اسی فصل کی کاشتکاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک برس چاول کی قیمت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی تو سب کی رال ٹپکی اور اگلے برس دھان کی فصل اس قدر بےابرو ہوئی کہ کوئی اٹھانے کو تیار نہیں۔ کبھی گنے کی قیمت بڑھی تو سبھی اس بہتی گنگا میں ڈبکی لگانے لگے اور نتیجتاً ڈوب گئے۔ اگر کبھی کپاس کی قیمت کو ہوا لگ گئی تو اگلے سال وہ آنکھ کا تارا ٹھہری۔
اس دلدل سے نکلنے کے لئے، اپنی نیا پار لگانے کے لئے مضبوط سیاسی نظام اور منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ کونسی فصل، ہماری کتنی ضرورت ہے، ضرورت اور پیداوار کا تناسب معلوم ہوتا کہ ہم اپنی ضرورت کو خود پورا کرسکیں اور جو وافر پیداوار ہو اس سے زر مبادلہ کماسکیں۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ہم منصوبہ بندی میں اس قدر نا اہل ٹھہرے کہ ایک سال اپنی ضرورت کی فکر کیے بغیر گندم ایکسپورٹ کرکے زر مبادلہ کمایا اور پھر اسی سال اپنے پیٹ پوجا کے لیے کئی گنا زیادہ قیمت پر اس کو امپورٹ کیا گیا۔
گزشتہ چند برسوں میں انجینئرنگ کی تنزلی بھی اسی کارگزاری کی مرہون منت ہے۔ ہمارے ہاں بھیڑ چال کی رسم عام ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ کس فن میں کتنے بندوں کی مہارت درکار ہے؟ معاشرے کی ضرورت کیا ہے؟ کچھ معلوم نہیں بس سب کو انجینئر بننا تھا۔ حسرت دل کو پورا کرنے کےلیے اندھا دھن کالجز اور یونیورسٹیاں کھولی گئیں اور کئی ریوڈ تیار کیے گئے۔ جس کے نتائج آپ سب کے سامنے ہیں۔ پروفیشنل ڈگری لینے کے باوجود بیشتر صاحبان بے روزگار، در بدر، مارے مارے اور ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔
انجینئرنگ کے بعد میڈیسن کا شعبہ بھی اس گمبھیر مسئلے سے دوچار ہے۔ آئے روز ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج کھل رہا ہے۔ معاشرے میں ڈاکٹر کی بھرمار ہو رہی ہے۔ کیونکہ سب کو اپنے بچے ڈاکٹر بنانے ہیں اور وہ یہ خواب دیکھیں نا تو کیوں کر! وہ بھی تو خواہش مند ہیں کہ اپنے بچوں کا روشن مستقبل دیکھیں۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا کامیاب ہو اور معاشرے میں عزت والی زندگی گزارے۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا پیشہ معتبر ہو سکتا ہے؟ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کامیاب ہوں اور عزت والی زندگی بسر کریں۔ یہ اہم اور موزوں شعبوں میں سے ایک ہے، اور لوگ اس میں شوق سے داخل ہوتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹروں کی بڑھتی تعداد اور اس کے ساتھ ساتھ مراکز صحت کی کمی مسئلہ بن چکا ہے۔ جس کا حل توسیعی اور سیاسی اقدامات ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال 14 سے 15 ہزار ڈاکٹر پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں 15 سے 20 ہزار ڈاکٹر چائنہ اور وسطی ایشیای ممالک سے فارغ التحصیل ہو کر ہنر آزمای کےلئے اپنے پیارے دیس پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ یہ گنتی ہر آنے والے وقت کے ساتھ مزید بڑھ رہی ہے۔ مگر ہسپتالوں کی تعداد وہی ہے، اگرچہ آبادی میں اضافہ کے باعث ڈاکٹروں کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے لیکن یہ پیداوار کافی زیادہ ہے۔ شاید ہمارے ہاں بنیادی سہولیات صحت میسر ہی نہیں۔ اس لیے یہ تناسب بگڑ گیا ہے۔ گزشتہ برس ایک خبر مصول ہوئی کہ میڈیکل آفیسر کی گیارہ نشستوں کے لیے دو ہزار صاحب علم یعنی ڈاکٹروں نے اپلائی کیا ہے۔
یہ محض ایک یا دو پیشوں کی بات نہیں بلکہ یہاں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہے۔ بگاڑ کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ جس کو دیکھ کر پتا پانی ہو جاتا ہے۔ ان حالات کو روکنے کے لئے مضبوط سیاسی نظام کی ضرورت در پیش ہے۔ جو پیشوں کو ایک ضابطے کے تحت تقسیم کرے اور کوئی ایسا پیشہ عمل میں نہ آنے دے جو معاشرے کے لئے مخرب الاخلاق ہو اور اس طرح حکومت ایسے قوانین نافذ کرے جو معاشرے کے استحکام اور ترقی کے لئے ضروری ہوں اور لوگوں کے ایسے اعمال کا محاسبہ کرے جو معاشرہ کے لئے مضر ہوں۔