Riyasat Ya Siasat? Faisla Karna Hoga
ریاست یا سیاست؟ فیصلہ کرنا ہوگا
اقوام عالم اپنے راہنماؤں اور سیاسی قائدین کی بصیرت، دور اندیشی اور قائدانہ صلاحیتوں سے پروان چڑھتی ہیں۔ یہ راہنما اپنی عقل و فہم کا استعمال کرتے ہوئے ملک و قوم کو سانحات، حادثات اور بحرانوں سے بچا کر مملکت کی حفاظت اور امن کو قائم رکھتے ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہریئے! ایسے راہنما پاکستان میں ناپید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری نے آج پاکستان کو شدید سیاسی اور انتظامی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
یہ بحران سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نہیں اور نہ ہی عدلیہ اور مقننہ کی چپقلش ہے بلکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عوام اور ادارے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اس بحران کو جنم دینے میں سب سے بڑا کردار پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر براجمان سیاسی قائدین کا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہ سیاسی مخالفین کو بےبنیاد کیسسز میں پابند سلاسل کیا جائے۔ ہمیں اس بات کی بھی عادت ہو چکی ہے کہ روز غدار، ایجنٹ، کرپٹ، نااہل اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ جیسے الفاظ سنیں۔
لیکن آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔ اس موجودہ بحران کی ذمہ داری حکومتی کاندھوں پر سب سے زیادہ ہے۔ اگر حکومت 14 مئی کو پنجاب میں صوبائی انتخابات کے عدالتی حکم پر رضامندی ظاہر کرتی تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ پی ڈی ایم جماعتوں کے قائدین کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اگر انتخابات کروائے گئے تو عمران خان اپنی بڑھتی مقبولیت کے سبب بھاری اکثریت سے کامیاب ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنی سیاست بچانے کے لیے ریاست کو سماجی، سیاسی اور معاشی بحرانوں کی نظر کیا جا رہا ہے۔
یہ بات عیاں تھی کہ عمران خان کی گرفتاری ملک کے طول و عرض میں انتشار کا سبب بنے گی مگر اس کے باوجود عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا گیا اور پھر وہی ہوا جو متوقع تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون سب کے لئے برابر ہے اور سب کے ساتھ بلا تفریق یکساں سلوک ہونا چاہیے لیکن آج عدلیہ اور قانون مذاق بنا دیا گیا ہے۔ حکومت عدالتی احکامات کو خاطر میں نہیں لا رہی۔ ایسے قوانین وضع کئے جا رہے ہیں جس سے چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی واقع ہو۔
ججوں کو دباؤ میں لانے کے لیے انکے خلاف بدعنوانی کے الزامات عائد کرکے کاروائی کرنے کا تاثر دیا جا رہا ہے۔ اسکے ساتھ ہی سیاسی انتشار کو مزید ہوا دی جا رہی ہے۔ حکمران عوام کو بحرانوں سے نکالنے کے بجائے اس غربت اور مہنگائی کی چکی میں پسی قوم کو مزید بحرانوں میں دھکیل رہے ہیں۔ یہ بھی عجب مذاق ہے کہ جو اقتدار میں آتا ہے اسکے اربوں کے کیسسز بھی ختم اور ثابت نہیں ہوتے اور جو اقتدار سے باہر ہو اسکے سر دنیا بھر کے جرائم تھوپے جاتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا عمران خان کے ساتھ نواز شریف کو بھی پاکستان لا کر گرفتار کیا جاتا تاکہ عوام کو پیمانہِ عدل کے برابر ہونے پر شبہ نہ رہتا۔ عمران خان کی گرفتاری سے جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ پورا عالمی میڈیا اور اخبارات کی شہ سرخیاں عمران خان کی گرفتاری کی خبروں سے پر ہیں۔ مشتعل مظاہرین نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر کو نذر آتش کیا گیا، جی ایچ کیو پر احتجاج کیا گیا، میانوالی میں قائم ایئر بیس پر موجود ڈمی F 6 جہاز کو نذر آتش کیا گیا۔
ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت آگ کے شعلوں میں جل رہی ہے اور یہ مناظر دل پارہ کر دینے والے ہیں جبکہ بیرون ملک ریاست کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے مظاہرین کو کور کمانڈر ہاؤس میں داخلے سے نہیں روکا جو اس تمام صورتحال کو انتہائی مبہم بنا رہا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے ہیں، کارکنان سڑکوں پر، پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت گرفتار اور حکومتی معاونین خصوصی و مشیران اپنے جارحانہ بیانات سے سیاسی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی پر پابندی اور سخت کارروائی کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے جو کسی بھی طور عقلمندانہ اور مناسب فیصلہ نہیں ہوگا اور نہ ہی مقبول جماعت کے کارکنان اس بات کو قبول کرینگے۔ ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھنے کے بجائے پھر سے انہیں دہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے معاونین کی زبانوں کو لگام دے کر مذاکرات کی میز پر آئے۔ گرفتاری سے محفوظ پی ٹی آئی قائدین پر بھی لازم ہے کہ وہ کارکنان کو پر امن رہنے کی تلقین کریں اور خود احتجاجی مظاہروں کی سرپرستی کریں تاکہ آئینی حق کو آئین کی حدود میں رہ کر استعمال کیا جا سکے۔
قومی اداروں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ادارے غیر مقبول فیصلوں سے گریز کرتے ہوئے اس صورتحال کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر عوام میں یہ تاثر مضبوط ہوگیا کہ اداروں کا جھکاؤ ایک جانب ہے تو یہ مزید انارکی کا سبب بنے گا۔ معاملہ فہمی، آئین پر عمل اور عقل سلیم سے اس بحرانوں کا سدباب کرنا چاہیے تاکہ ملک کسی اور حادثے سے محفوظ رہ سکے۔ اگر یہ کھیل تماشہ بند نہ ہوا تو پھر ہم بدامنی اور عدم استحکام کے ایک اور بنھور میں پھنس سکتے ہیں جہاں سے نکلنے کے لیے دہائیاں درکار ہونگی۔