Israel Ke Pas e Parda Maqasid
اسرائیل کے پس پردہ مقاصد

ایران پر حالیہ اسرائیلی حملوں نے اس بات کو واضع کر دیا ہے کہ اسرائیل کا مقصد ایرانی جوہری پروگرام پر تحفظات نہیں بلکہ اسکا اصل مقصد ایران میں موجودہ حکومت کو تبدیل کرنا ہے۔ اسرائیل جوہری پروگرام کو بہانہ بناکر ایرانی حکومت کو گرانا چاہتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایران بار ہا اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں کہہ چکا ہے کہ اسکا پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے جس کا جوہری ہتھیاروں سے کوئی تعلق نہیں۔
عالمی جوہری معاملات کی نگرانی کرنے والی تنظیم اے ائی ای ائی نے بھی اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ ایران نے فی الوقت جوہری ہتھیار نہیں بنائے ہیں اور نہ ہی اس بات کا ثبوت پایا گیا ہے۔ مگر اسرائیلی حملے اور اس میں ممکنہ امریکی شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا مقصد اصل میں ایران میں حکومت کی تبدیلی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عرصے دراز سے امریکہ اور اسرائیل ایرانی انقلاب کو اپنے لیے نقصان سمجھتے ہیں خاص کر اسرائیل ایرانی حکومت کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
ایران اپنے انقلاب سے ہی فلسطین کے لئے آواز اٹھا رہا ہے اور ہر طریقے سے فلسطینی آزاد ریاست کے قیام کے لیے جدو جہد کر رہا ہے۔ حماس، حزب اللہ، حشد الشعبی سمیت دیگر مزاحمتی تنظیموں کو ایران کھل کر مدد فراہم کر رہا ہے اور ان تنظیموں کی جانب سے بھی اس بات کا بارہا اقرار سامنے آیا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ اسرائیل جیسے ملک کے لئے جسکا رقبہ 22 ہزار 145 کلو میٹر ہے اور اگر امریکہ کی پشت پناہی نہ ہو تو پل بھر کے لئے بھی ٹھہر نہ سکے ایران سخت حریف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ایرانی اسلامی حکومت کو ختم کرکے اپنی بدمعاشیوں اور قتل و غارت گری کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔
اسرائیل کو اس بات کا علم ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے خلاف کسی عملی اقدام کے قابل نہیں ہیں اور نہ ہی اب ان میں فلسطین کاز کے لئے وہ جزبہ موجود ہے جو کچھ دہائیوں پہلے تھا۔ اسرائیل اب ایران میں حکومت تبدیلی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے اور اس کے لئے جوہری پروگرام ایک آسان بہانہ ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے ایران کے سابق شہزادے رضا پہلوی بھی روز ایرانی عوام کو موجودہ نظام حکومت کے خلاف ابھارنے کے لئے بیانات جاری کر رہے ہیں اور انکی بیٹی نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی دادی یعنی سابقہ ایرانی ملکہ فرح پہلوی کے ساتھ ایک تصویر پوسٹ کی ہے جس میں لکھا ہے کہ میری دادی کافی مدت کے بعد اپنے آبائی وطن ایران جانے کے لئے بے تاب ہیں۔
یہ تمام باتیں اس بات کہ عکاسی کرتی ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران کے دفاعی نظام کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام حکومت کو تبدیل کرکے ایک کٹھ پتلی حکومت کو قائم کرنا چاہتے ہیں جوامریکہ، اسرائیل اور یورپی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرے۔ رجیم چینج کی پالیسی امریکہ کے سیاہ کارناموں میں سے ایک ہے۔ عراق، لیبیا، شام سمیت امریکہ نے کئی ممالک کی حکومتیں گرا کر وہاں اپنے مطلب کی حکومتیں قائم کیں۔ ایران میں رجیم چینج کی پالیسی کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔
ایران ایک مضبوط اور ہزاروں سالوں کی تاریخ پر محیط ملک ہے۔ ایرانی عوام میں جزبہ حب الوطنی اور قوت تسدید بہت زیادہ ہے۔ خاص کر اسرائیلی حملوں کے بعد ایرانی عوام مضبوط چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنی قیادت سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ ایرانی موجودہ نظام حکومت گر جاتا ہے تو اس کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہینگے۔ اسرائیل گریٹر اسرائیل کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اسکا مقصد شام، لبنان، اردن، مصر اور عراق کے علاقوں کو شامل کرکے قدیم اسرائیل ریاست کو قائم کرنا ہے۔ اسکے علاوہ اسرائیلی صہیونی حکومت کا مقصد تمام اسلامی حکومتوں کو معاشی اور دفاعی طور پر کمزور کروا کر انکو کسی عالمی استکباری طاقت کے خلاف اٹھنے کے قابل نہ چھوڑنا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی جوہری پروگرام ہمیشہ سے ہی ان طاقتوں کے نشانے پہ رہا ہے۔ اسرائیل نے پاکستان کے ایٹمی ری ایکٹرز پر حملے کرنے کے لئے ماضی میں بھارت کے ساتھ مل کر کوششیں بھی کی ہیں اور موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نے ماضی میں ایران کے ساتھ پاکستان کو بھی اپنے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ ہم موجودہ صورتحال سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ ماضی میں بھی اسلامی ریاستوں کے صرف زبانی بیانات اور عملی اقدامات کے فقدان کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ، لبنان، شام میں حملوں سمیت دیگر مسلم ریاستوں میں خانہ جنگی کروائی ہے۔ اگر اب بھی اسرائیل کے خلاف ایران کی حمایت میں مسلم حکومتوں نے عملی اقدامات نہ کیے اور ایرانی حکومت اور اثاثوں کا دفاع نہ کیا تو بھر بچی کچی مسلم ریاستیں بھی اپنی طاقت کو برقرار نہ رکھ پائنگے۔
پاکستان سفارتی، سیاسی اور عسکری محاذ پر اس قابل ہے کہ اپنے اقدامات سے مسلم ممالک کو متحد کرے اور ایران کے دفاع کے لئے عملی اقدامات کرے۔ کیونکہ ایران میں آنے والی ہر تبدیلی کا براہ راست اثر پاکستان پر ہوگا۔ مسلم حکمران اگر اب بھی مصلحتوں سے باہر نہیں آئے تو یہ صہیونی اور عالمی استکباری طاقتیں مسلمان ممالک کو کمزور سے کمزور کرکے اپنے مفادات کی قیمت مسلمانوں کے خون سے وصول کرینگی (خدانخواستہ)۔

