Ye Bad Kirdar Hai
یہ بدکردار ہے
جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ہر ہاتھ نے موبائل نہیں بلکہ ایک دنیا تھام رکھی ہے۔ سکرینز ٹرول ہو رہی ہیں جہاں دنیا جہاں کے لوگ آپ کے سامنے اپنی زندگی گزارتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چونکہ زندگی ہر کسی کی اپنی ہے اِسی لیے ہر کوئی اپنی مرضی سے جی رہا ہے اور زندگی کو اپنی مرضی سے جینے کا حق بھی سب کو حاصل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوہرے معیار کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ہم اندر سے کچھ ہیں اور باہر سے کچھ اور نظر آتے ہیں۔ ہمارا اندر زہر سے بھرا پڑا ہے اور زبان پر جلیبیاں لیے پھرتے ہیں۔ ہم ڈھیلے کردار کے دوسروں پہ تہمتیں لگانے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ ہماری زبان، فتوے صادر کرنے والی مشین بن کے رہ گئی ہے۔
بھئی جو جیسے مرضی جیے مجھے کیا، میں کیوں کسی کو ٹرول کروں۔ میں کیوں کسی کے کردار کے اسٹامپ پیپر لوگوں میں بانٹتا پھروں؟ کوئی برا ہے تو وہ اپنا خود ذمہ دار ہے۔ کوئی نیکو کار ہے تو وہ خود اپنی جنت بنا رہا ہے۔ کوئی جھوٹا ہے تو لعنتیں اس کے حصے میں آنی ہیں۔ کوئی بدکردار ہے تو اس کے اعمال کا حساب وہ خود اللہ کو دے دے گا۔ میں کیسے یوں کسی پر بھی انگلی اٹھا سکتا ہوں۔ مجھے یہ حق کس نے دیا ہے؟
سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والی پوسٹس اور کمنٹس دوسروں کے کردار کے پرچے بانٹنے میں لگے ہیں۔ یہاں ہر کوئی نیک بنا ہوا ہے۔ ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹا اور ٹوئیٹر پر لوگوں کو گالیاں اور اُن کے کردار پر باتیں کی جاتی ہیں۔ اُن کو تبلیغ کی جاتی ہے۔ یہ باور کروایا جاتا ہے کہ تم غلط ہو، تم بدکردار ہو، تم دو نمبر ہو یا یہ کہ سوشل میڈیا نِرا گند ہے۔
مجھے مسئلہ صرف یہ ہے کہ بھئی اگر ٹک ٹاک حرام یا ٹک ٹاک پر ویشیا نظر آتی ہیں تو آپ نے ٹک ٹاک جیسی حرام ایپ انسٹال ہی کیوں کر رکھی ہے؟ اگر ٹک ٹاک والے گناہ کر رہے ہیں تو آپ ان کو دیکھ دیکھ کر کون سا ثواب کما رہے ہیں؟ بھئی اگر یہ سارا سوشل میڈیا خراب ہے تو آپ کو کون مجبور کر رہا ہے کہ آپ ان واہیات ایپس کو انسٹال یا ڈاؤنلوڈ کریں؟ ایسی کون سی مجبوری ہے؟ اور اگر ان ایپس کے بغیر گزارہ نہیں ہے تو خدارا انگلی اٹھانا بند کر دیں۔ خود بھی جئیں اور دوسروں کو بھی جینے دیں۔
بات لمبی ہے، جتنی بڑھائیں گے، بڑھتی جائے گی۔ بس آپ ایک چھوٹا سا فارمولا اپنا لیں۔
جو جہاں لگا ہوا ہے، اُسے لگا رہنے دیں۔ آپ بس خود پہ فوکس رکھیں اور دوسروں کو بھی آزادی کے ساتھ جینے دیں۔