1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Waldain Se Baatein Kya Karen

Waldain Se Baatein Kya Karen

والدین سے باتیں کیا کریں

ہم ہمیشہ سے ایک چیز دیکھتے آ رہے ہیں، کہ ماں اپنے چھوٹے بچے کو چومتی ہے، لاڈ کرتی ہے۔ باپ کندھوں پہ اُٹھا کر پورا میلا دکھاتا ہے، اولاد کے لیے کماتا ہے، خوب محنت کرتا ہے۔ لیکن ایک بات، جو آپ نے شاید کبھی نوٹ کی ہے۔ وہ یہ کہ جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو ماں اُس سے ڈھیروں باتیں کرتی ہے، بلکہ یوں کہہ لیں کہ بچہ ابھی پیٹ میں ہی ہوتا ہے کہ ماں اُس سے باتیں کرنا شروع کر دیتی ہے۔

حالانکہ یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی کہ ایک چھوٹا سا بچہ کیسے باتیں سمجھ سکتا ہے۔ لیکن اِن سب کے باوجود ماں روزانہ اپنے بچے سے ڈھیروں باتیں کرتی ہے، اِس چیز سے قطعی بےخبر کہ بچہ باتیں سن رہا ہے، سمجھ رہا ہے یا نہیں لیکن وہ روزانہ کی بنیاد پر بچے کے ساتھ خوب کھیلتی ہے۔ ہر طرح کی باتیں کرتی ہے۔ لاڈیاں لڈاتی ہے، چھیڑتی ہے، ہنساتی ہے۔ پھر وقت آہستہ آہستہ کروٹیں لیتا ہے۔

کرولنگ کرتا ہے، اٹھتا ہے، چلتا ہے اور پھر بھاگنے لگتا ہے اور بچہ گھبرو جوان ہو جاتا ہے۔ باتیں اور لاڈ کرنے والے والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ عقل بچوں جیسی ہو جاتی ہے۔ والدین، بچوں کی طرح سوال دوہرانے لگتے ہیں۔ ایک بات بار بار پوچھتے ہیں اور تب اولاد اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ وقت کایا پلٹتی ہے اور بچپن میں لاڈ اور باتیں کرنے والوں کو اب خود باتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

جیسے والدین ہمارے بچپن میں ہم سے باتیں کرتے تھے بنا یہ سوچے یا جانے کہ ہمیں سمجھ لگتی ہے یا نہیں بالکل ویسے ہی والدین کو بڑھاپے پہ ویسے ہی ہمارا ساتھ اور ہماری باتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہم یہ سوچ کر اُنہیں وقت نہیں دیتے، اُن سے باتیں نہیں کرتے کہ اِنہیں کون سا سمجھ آنی ہے۔ بس یہی سوچ کر ہم والدین کے پاس نہیں بیٹھتے، اُن سے ڈھیروں باتیں نہیں کرتے۔ جبکہ ہمارے بوڑھے والدین کو ہماری سخت ضرورت ہوتی ہے۔

مگر ہم وقت اور باتیں دونوں کے لیے وقت نہیں نکالتے اور یوں ایک بڑا گناہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہماری ہر آنے والی نسل ایسے ہی رپیٹ پہ لگی ہوئی ہے۔ والدین بچوں سے لاڈیاں کرتے ہیں اور جوان اولاد بوڑھے والدین کو اکیلے چھوڑ دیتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں والدین تنہا ہو جاتے ہیں کہ جس وقت اُنہیں اولاد کا سب سے زیادہ سہارا درکار ہوتا ہے۔ مگر کیا کریں یہ المیہ ہمارے معاشرے کے بدن میں اپنے پنجے بہت بری طرح سے گاڑھ چکا ہے۔

اگر ہو سکے تو اِس چیز کو ممکن بنائیں اور بڑھاپے میں والدین کا سہارا بننے کی پوری کوشش کریں اور اُن سے باتیں کریں، چاہے وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں کیونکہ یہ اُن کا قرض ہے۔ جو کہ ہمیں ہر حال میں سود سمیت واپس کرنا ہی کرنا ہے۔

Check Also

9 May Ki Maafi Nahi

By Saira Kanwal