1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Vaathi

Vaathi

واتھی

میں نے سن 2008 میں سائنس کے ساتھ میٹرک کی تھی۔ میں ریاضی میں بےحد کمزور تھا۔ فزکس بھی کچھ کچھ تنگ کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے بائیو کے استاد کلاس میں بہت کم دلچسپی کے ساتھ پڑھاتے تھے جبکہ شام کو ٹیوشن پر بڑے اچھے سے سمجھاتے تھے۔

وہ استادِ محترم کلاس میں اُن طلباء کے ساتھ بڑا عجیب سلوک رکھتے تھے جو اُن کے پاس ٹیوشن پڑھنے نہیں جاتے تھے۔ بعض اوقات مار بھی پڑتی تھی۔ مجھے کوئی ایسا استاد چاہیے تھا جس کا لیکچر لینے میں مزہ آئے۔ یہاں تک کہ میں دو سے تین استاد ٹیوشن کے بھی بدل چکا تھا۔

میرے دور میں ٹیوشن ایک فیشن تھا۔ ٹیوشن نہ پڑھنے والے بچوں کو نالائق تصور کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ بورڈ ٹاپ کرنے والے طلباء اسکول کے علاوہ مزید تین جگہ ٹیوشنز پڑھنے جاتے تھے۔ پہلی ٹیوشن فجر کی نماز کے بعد، دوسری چھٹی کے فوراً بعد اور تیسری عشاء کی نماز کے بعد۔

خیر اللہ نے میری سُن لی اور ایک دن سر احمد کی شکل میں مجھے میرے من پسند استاد مل گئے۔ وہ اِس قدر کمال استاد تھے کہ سائنس سبجیکٹس کو میرے لیے انتہائی آسان بنا دیا تھا اور اُن کی وجہ سے مجھے ریاضی بھی اچھی لگنے لگی تھی۔ بورڈ امتحانات قریب آئے تو میں نے اُن کے پاس ٹیوشن شروع کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے میں نے اُنہیں ایک ماہ ٹیوشن کی آدھی فیس اور ایک ماہ بالکل فیس نہیں دی تھی مگر اُنہوں نے کبھی بھی اِس چیز کا تذکرہ یا کسی بھی حوالے سے کوئی طنز یا بات نہیں کی تھی۔

اُن کی وجہ سے میں نے ریاضی میں 70/100 نمبرز حاصل کیے تھے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر وہ میری فیس معاف نہ کرتے تو پتہ نہیں میرا رزلٹ کیسا ہوتا؟

یہ فلم بھی تعلیمی کیرئیر کے متعلق بہت گہرے انکشافات کرتی دکھائی دیتی ہے بلکہ ہمارے گھٹیا تعلیمی نظام پر کئی سوال داغتا وہ سچ ہے جس کا سامنا کرنے سے بےایمان لوگ کنی کتراتے ہیں۔ اس فلم میں لوئر مڈل کلاس کی اُن مشکلات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ جن بیچاروں کو تعلیم سے زیادہ پیٹ پوجا کی فکر رہتی ہے۔ جو اپنے تعلیمی اخراجات ادا کرنے میں پوری طرح سے قاصر رہتے ہیں۔

اِس فلم میں پرائیویٹ اسکولز، کالجز کے مافیا کا چہرہ بھی بےنقاب کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کیسے یہ مافیا ہمارے لوئر مڈل کلاس کو تعلیم سے دور رکھنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ کیسے یہ مافیا ایجوکیشن سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کرکے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کرتا ہے۔ کیسے تعلیم کو ایک فرض اور مقدس پیشہ سمجھنے کی بجائے کاروبار بنایا ہوا ہے۔ اِنہیں تعلیم سے کوئی غرض نہیں ہے، اِنہیں بس اپنی جیبیں بھرنی ہوتی ہیں۔

اِس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اگر ایک استاد بھی کچھ اچھا کرنے کی ٹھان لے تو وہ پورے سسٹم کو ٹکر دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ مزید یہ سبق دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ اگر تمہیں غریب ہو کر اچھی تعلیم حاصل ہوگئی ہے تو آگے اپنے جیسے غریبوں کی بھی مدد کرو، اُن کا سہارا بنو، اُن کی اچھی تعلیم کے لیے وقت نکالو، محنت کرو، اُن کا بھرپور ساتھ دو اور اُنہیں بھی خود کی طرح کامیاب بنا کر دم لو۔

آج یہ فلم دیکھ کر اپنی غربت کے دن یاد آ گئے کہ کتنی مشکلوں سے میٹرک کی تھی اور اللہ میرے استادِ محترم جناب احمد صاحب کو لمبی صحت والی زندگی عطا فرمائے اور اُن کی زندگی کو بھی ایسے گلزار کر دے جیسے میری ہوگئی ہے۔

Check Also

Magar Aik Maa Nahi Manti

By Azhar Hussain Azmi