Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Tumhari Yaadein Aur Ye Kambakht Sardi

Tumhari Yaadein Aur Ye Kambakht Sardi

تمہاری یادیں اور یہ کمبخت سردی

سردی کا موسم جب بھی آتا ہے، اپنے ساتھ تمہاری یادوں کا وہ طوفان لے کر آتا ہے کہ جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ جو رُکتا نہیں ہے۔ سردیوں کی دھوپ سے گِھن آنے لگتی ہے مجھے اور اگر دُھند ہو تو اُس سے بلا کی وحشت ہونے لگ جاتی ہے۔ دسمبر کی ٹھٹھرتی راتیں اور تمہاری یادیں کچھ اِس طرح سے میرے گلے کو آتی ہیں کہ میرا دَم گھُٹنے لگتا ہے۔ سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے جیسے نَسوں میں کسی نے چھوٹی چھوٹی باریک سی کنکریاں بھر دی ہوں جو سانس لیتے وقت اتنی تکلیف پیدا کرتی ہیں کہ دل کرتا ہے چیخ چیخ کر اپنی جان دے دوں۔

اِنہیں سردیوں اور تمہاری یادوں کی وجہ سے میں شمالی علاقہ جات بھی نہیں جاتا۔ پتہ ہے میں کبھی ناران، کاغان اور سوات نہیں گیا یہاں تک کہ مری بھی نہیں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمہاری یادیں سردی کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتی ہیں اور کسی وحشی درندے کی طرح مجھے نوچنے لگتی ہیں۔ پھر نہیں دیکھتیں کہ میرا نقصان کتنا ہو رہا ہے، میں زخمی کتنا ہو رہا ہوں یا کس حد تک تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ تمہاری یادوں کو پھر زرا پرواہ نہیں رہتی میری۔

یاد ہے تم مجھے سردی میں آئسکریم بھی نہیں کھانے دیا کرتی تھی کہ بعد میں مجھے نزلہ ہو جائے گا اور تم سے میری سُرخ بہتی ہوئی ناک نہیں دیکھی جاتی اور پتہ ہے مجھے اب بھی ہر سردیوں میں نزلہ ہو جاتا ہے۔

سُرخ بہتی ہوئی ناک اور گلے کی خرابی میری جان کو آنے لگتی ہے۔ کچھ بھی اچھا نہیں لگتا مجھے۔

نہ دھوپ، نہ دھند، اور نہ ہی رات میں جلتی ہوئی آگ کے آلاؤ کے گرد بیٹھنا۔

میں دُعا تو بہت کرتا ہوں کہ یہ سردیاں نہ آیا کریں لیکن کیا کروں یہ پھر بھی آ جاتی ہیں اور میری زندگی کو عذاب بنا دیتی ہیں۔ اتنی اذیت ہوتی ہے مجھے کہ بدن کے ریشے تک کھُلنے لگ جاتے ہیں۔ لگتا ہے وجود کا ہر حصہ الگ ہو جائے گا اور جسم پھٹ جائے گا میرا۔

سردیوں کی بارشیں میرے وجود کے اندر صدیوں کی تھکاوٹ بھر دیتی ہیں۔ بارش کی ہر بوند کسی چنگاری کی طرح میرے بدن کو جھلسانے لگتی ہے۔ کالے بادل میری سوچوں کو ورغلانے میں مصروف ہو جاتے ہیں جس سے میرے دماغ کی شریانیں کسی لوہے کی گرم سُلاخ کی طرح تپنے لگ جاتی ہیں اور میں بُخار میں پھنکنے لگ جاتا ہوں۔

سوچتا ہوں کہ چائے کے ساتھ پینا ڈول کی گولی کھا لوں مگر ہر بار تمہاری یادوں میں اِس قدر محو ہوتا ہوں کہ ہر بار چائے ٹھنڈی پینی پڑتی ہے اور گولی رہ جاتی ہے۔

کتنا ہی اچھا ہوتا کہ جاتے وقت تم مجھے کوئی زہر ہی پلا جاتی۔ مار دیتی۔

یوں پل پل مرنے سے تو جان چھوٹتی میری۔

کتنا بےبس ہوں میں اِس معاملے میں اور میری یہی بے بسی میرے وجود کو چٹخ چٹخ کے تکلیفوں کے دریاؤں میں بہاتی رہتی ہے۔ میں لہروں کے بہاؤ کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہوں۔

وہ کون لوگ ہوتے ہیں۔ جنہیں موت آ جاتی ہے۔ مجھے تو اتنی تکلیفوں کے بعد بھی موت نہیں آ رہی۔ میں مر نہیں رہا۔

اب تو ایک ہی دعا کرتا ہوں کہ "تم لوٹ آؤ واپس" یا موت آ جائے مجھے۔

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz