Tapish Hi Zindagi Hai
تپش ہی زندگی ہے
ایک کسان دن رات اپنی زمین پر محنت کرتا ہے، فصل بوتا ہے، کبھی ہل چلاتا ہے تو کبھی گوڈی کرتا ہے۔ کبھی پانی دیتا ہے تو کبھی کھاد ڈالتا ہے، سپرے کرتا ہے۔ نہ مینہ دیکھتا ہے نہ دھوپ، بس مسلسل محنت کرتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو فصل اُسے مطلوبہ ہدف مہیا نہیں کر پاتی۔ وہ گندم بوتا ہے، وہ اُگتی ہے اور بارش، اندھیرا، روشنی اور موسم کی ہر طرح کی صورتحال سے دو چار ہوتی ہے۔ گندم کو پانی، کھاد سپرے یہ سب چاہیے ہوتا ہے لیکن اِن سب چیزوں کے باوجود خود کو کارآمد بنانے کے لیے، پکنے کے لیے دھوپ کی ضرورت پڑتی ہے اور اگر دھوپ نہ ملے تو وہ صحیح سے پکتی نہیں اور یوں اُس پہ کیا گیا سارا خرچہ ضائع ہو جاتا ہے۔
ہر فصل کو پکنے کے لیے سورج کی تپش چاہیے ہوتی ہے۔ یہی تپش ہی گندم کے دانوں کو پکاتی ہے۔ ہر طرح کی فصل کو، پھلوں کو اِسی تپش کی ضرورت ہوتی ہے۔ دھوپ نہ پڑے تو ہر چیز بدمزہ اور کچی رہ جاتی ہے۔ ہم گھر میں سالن بناتے ہیں تو آگ کی مدد چاہیے ہوتی ہے۔ بغیر تپش کے ہمارا کھانا بھی نہیں بن پاتا۔ ہم جو پھل کھاتے ہیں وہ بھی دھوپ کی تپش سے پکتے ہیں، آگ ہی اُن میں جان ڈالتی ہے، اُنہیں پکا کر میٹھا اور عمدہ بناتی ہے۔ یعنی مکمل اور کارآمد بننے کے لیے تپش بےحد ضروری ہوتی ہے اور جو تپش برداشت نہیں کرتا وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔
ہمیں بھی محنت، صبر اور مشکلات کی تپش ہی ایک مضبوط اور کامیاب انسان بناتی ہے۔ لیکن ہم پہ جب مشکل گھڑی یا آزمائش کی دھوپ پڑتی ہے تو ہم بوکھلا جاتے ہیں، گلے شکوؤں میں پڑ جاتے ہیں جبکہ یہ سب ہماری اچھائی اور بھلے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ کوئی مشکل اگر آتی ہے یا دکھ جھولی میں گرتا ہے تو ہمیں مضبوط اور مکمل بنانے کے لیے ہی ایسا ہوتا ہے۔
تو بڑا انسان بننے کے لیے یہ بڑا آسان سا کلیہ ہے کہ مکمل، میٹھا اور شاندار نتیجہ دینے کے لیے آگ کی بھٹی سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ امتحان اور آزمائش کی تپش کو جھیلنا ہی پڑتا ہے۔ اگر آپ مصیبتوں، تکلیفوں اور زندگی میں آنے والی اڑچلوں کو جھیلنے سے بھاگتے ہیں تو یاد رکھیں کہ آپ پک کر ایک کامیاب انسان اور اپنے مطلوبہ ہدف تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر کامیاب ہونا ہے تو تپش کو جھیلنا سیکھیں وگرنہ ناکامی آپ کا مقدر ٹھہرے گی۔