Talkh Lehjon Ko Bolen Khuda Hafiz
تلخ لہجوں کو بولیں"خدا حافظ"
انسانیت اپنی آخری سانسیں گِن رہی ہے اور یہ دور ماتم کناں ہے کہ ہمارے رویے بانجھ ہو گئے ہیں۔ لہجوں سے مٹھاس روٹھ گئی ہے اور دلوں میں محبت نہیں رہی۔ کسی بھی معاشرے کی خوشحالی کا راز لوگوں کے رویوں میں چھپا ہوتا ہے اور بد قسمتی سے ہمارے رویوں کو گھمنڈ اور بےحسی کا گھُن نگل گیا ہے۔ تکبر اِس قدر پھیل چکا ہے کہ لوگ سلام لینا بھی بھول گئے ہیں۔
چاچا شکورا کہا کرتا تھا کہ پُتر فاصلے دِلوں کو کھا جاتے ہیں۔ محبت کرنے والوں کا دِل اور تِتلی کے پَر بڑے نازک ہوا کرتے ہیں لیکن ہم فاصلوں سے نازک دل اور قربت میں تتلی کا پر توڑنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ ہوا سے دشمنی مول لینے کا مطلب گھُٹن ہوتا ہے۔ حکم محبت کا تھا اور ہم نے نفرتیں پال لیں تو آزمائشوں کے انبار تو لگنے ہی تھے۔ وباؤں نے تو پھیلنا ہی تھا۔ قدرت کے خلاف جاؤ تو ہار مقدر بن جایا کرتی ہے اور پھر خود سے جیت کے فیصلے کرکے ہمیں منہ کی کھانی پڑی۔
ہم نے لالچ کی پرستش شروع کر دی اور منڈیروں کو ختم کر دیا۔ کوے بولتے تھے تو مہمان آیا کرتے تھے جس کا مطلب رزق میں کشادگی ہوا کرتا تھا۔ ہم آزاد خیال بن گئے تو ہمارے پکے مکان کچی منڈیروں کو کھا گئے۔ کشادہ صحن، برآمدے اور دیواریں گِرا دی گئیں۔ ہم مہمانوں کو زحمت سمجھنے کا گناہ کر بیٹھے اور ہمارے گھروں سے برکتیں اُٹھا لی گئیں۔ کیونکہ رشتوں میں مٹھاس نہ رہے تو برکت روٹھ جایا کرتی ہے اور اگر رشتوں کی کڑواہت بھی برقرار رہے اور برکت بھی نہ روٹھے تو سمجھ جانا کہ خدا روٹھ گیا ہے۔
ہم پیٹ کے متعلق پہلے سوچنے لگ گئے جبکہ پیٹ بعد میں اور خدا کے بارے میں پہلے سوچنا چاہیے تھا کیونکہ ہمارے رویے خود غرض ہو گئے اور پیٹ کے چکر میں ہمیں عبادت بھی یاد نہ رہی۔ ہم اِس قدر بےحِس ہو گئے کہ قیامت سے پہلے ہی نفسا نفسی کی ایمرجنسی کو لاگو کر دیا۔ ہمارے جنازے بڑے ہوتے گئے مگر ہماری بیٹھکیں اور مساجد ویران کی ویران پڑی رہ گئیں۔
درخت کاٹنے سے پہلے پرندوں کے بارے میں سوچ لینا چاہیے اور رویوں کی کاٹ سے دلوں کو زخمی کرنے سے پہلے خدا کی بےآواز لاٹھی کے متعلق بھی کہ اگر رَسی کی پکڑ سخت ہو جائے تو انجام اچھا نہیں ہوا کرتا۔ مکان خالی ہو تو دیواروں سے جالے چمٹ جایا کرتے ہیں اور رشتوں میں فاصلے آ جائیں تو دلوں سے بدگمانیاں۔ اِسی لیے تلخ لہجوں کو خدا حافظ کہہ کر باتوں میں چاشنی گھولنا سیکھیں۔ رویے بدلیں گے تو معاشرہ بدلے گا اور معاشرہ بدلے گا تو خُدا خوش ہوگا۔