Tajrubat Aur Tehqeeqi Bunyad Per Aqeeday Bane
تجربات اور تحقیقی بنیاد پر عقیدے بنائیں
انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو اُس کی سوچ تخلیقی نہیں ہوتی۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑا ہوتا ہے اور اپنے آس پاس ہونے والی تبدیلیوں کو، لوگوں کے رویوں کو جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کرتا ہے، پھر اپنی سوچ کے مطابق معاشرے میں پھیلی اِن رسموں اور روایتوں کو اپناتا ہے اور جن پر دل نہیں مانتا اُنہیں اپنانے سے باز رہتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مختلف عقیدوں کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔
لیکن مسئلہ تب بنتا ہے کہ جب نئی آنے والی نسل، اپنے آباؤ اجداد کی سوچ کے مطابق ہی خود کو ڈھالے رکھتی ہے۔ نئی نسل اپنے بڑوں کی ایسی باتوں کے بھی سچا ہونے پہ عقیدہ رکھنے لگتی ہے کہ جن کا حقیقیت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ میں اِسی لیے کہتا ہوں کہ اپنے عقیدے کو پہلے تجربے اور تحقیق کی بنیاد پر پرکھ لیا کریں یا تجربات کے پتھر پر مار کر حقیقت ڈھونڈ لیا کریں۔
عقیدے کو آپ جب جب اصلی تحقیق کی بھٹّی میں ڈالیں گے تو نتیجے کے طور پر ہمیشہ حقیقت کو ہی آشکار پائیں گے۔ یہ بالکل ممکن نہیں ہے کہ جو کسی نے کچھ کہہ دیا ہے، تو اُس بات کو پتھر کی لکیر ہی سمجھ لیا جائے۔ حالات و واقعات میں ہر شے اپنے آپ کو تبدیل کرتی آئی ہے اور کسی بھی چیز کے متعلق کسی معلومات کو آخری معلومات کہہ دینا قطعاّ ٹھیک نہیں ہوتا۔
کسی پر بھی اندھا بھروسہ مت کیا کریں۔ اللہ نے آپ کو عقل و شعور سے نوازا ہے، تو یہ آپ پر بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے خود سے بھی تحقیق کر لیا کریں۔ کسی نے کوئی بات بتا دی ہے، تو پہلے اُس بات کی تصدیق تو کر لیں کہ آیا اُس بات میں کتنی صداقت ہے۔ دیکھیں چیزوں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کرنا اور اپنے عقیدے بنا لینا کسی صورت بھی ٹھیک بات نہیں ہوتی۔
اِسی لیے چیزوں کے متعلق جاننے کی کوشش کیا کریں اور بات کی گہرائی سے ہوتے ہوئے۔ اُس کی سچائی تک جایا کریں ورنہ یہ سنی سنائی باتیں اور پرانی روایات ہمیں بعض اوقات بہت پیچھے دھکیل دیا کرتی ہیں۔ بڑوں کی بتائی گئی ہر بات سچ نہیں ہو سکتی۔ وہ اپنے ذمانے کے لحاظ سے بالکل ٹھیک تھے، لیکن اب زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ اور آخری بات یہ کہ جتنا جلدی ہو سکتا ہے، خود کو روایتی پن اور پرانے عقیدوں سے آزاد کروا لیں ورنہ جدت آپ کو قید کر لے گی۔