Saiyaara
سیارہ

فلم دیکھتے ہوئے مجھ میں ایک خامی پائی جاتی ہے کہ اگر وہ محبت پر مبنی ہو اور اس کا کوئی ایک بھی منظر یا ڈائیلاگ میرے دل کو چھُو جائے تو میں پوری فلم پر فدا ہو جاتا ہوں۔ مجھے پھر اس چیز سے کوئی سروکار نہیں رہتا کہ کہانی کیسی ہے؟ خامیاں کتنی ہیں؟ خلاء کہاں کہاں ہیں۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ میں بس شیدائی ہو جاتا ہوں۔ فلم سیارہ دیکھتے ہوئے بھی میرے ساتھ کچھ یہی ہوا ہے۔ آئیے فلم کے متعلق بات کرتے ہیں۔
فلم "سیارہ" پر تبصرہ کرتے ہوئے دل بار بار یہی کہتا ہے کہ یہ فلم نہیں بلکہ ایک ادبی تحریر ہے جسے کسی اسکرین پر زندہ کر دیا گیا ہے۔ جیسے کسی شاعر کے کاغذ پر بکھری ہوئی تشبیہیں اور استعارے اچانک سانس لینے لگتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی۔
"سیارہ" وہ کہانی ہے جو ہمیں ہجر و فراق کے ان دائروں میں لے جاتی ہے جہاں وقت رک جاتا ہے، فاصلے بولنے لگتے ہیں اور محبت ایک ایسی دعا بن جاتی ہے جو کبھی قبول نہیں ہوتی، مگر پھر بھی مانگی جاتی ہے۔
اس فلم میں کردار ایک دوسرے کو چھونے کی خواہش میں اپنی دنیا سے نکل کر دوسرے کے مدار میں جانا چاہتے ہیں، مگر قسمت انہیں ایک نادیدہ قوت کی مانند پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دونوں محبت کرنے والے ایک دوسرے کے سیارے ہیں، روشنی سے جُڑے، کشش سے بندھے، لیکن پھر بھی ایک ان دیکھی سرحد انہیں جدا رکھتی ہے۔ یہی اس فلم کی سب سے بڑی سفاکی ہے اور سب سے بڑا حسن بھی۔
"سیارہ" کا ہر منظر ایک مکمل استعارہ ہے۔ بارش ہو یا چاندنی رات، دھوپ کی جھلسن ہو یا خاموش جنگل، سب کچھ محبت کے جذبے کو بڑھانے کے لیے برتا گیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے محبوب کے قریب ہونا یوں دکھایا گیا ہے جیسے برسوں کی پیاس بجھنے کو ہے، لیکن اگلے ہی لمحے جدائی کی ہوائیں سب کچھ ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں۔ یہ کیفیت دیکھنے والے کو اس کے اپنے تجربات کی طرف لے جاتی ہے، وہ لمحے جب ہم نے اپنے دل کی دھڑکن کو کسی اور کے لیے تیز ہوتے محسوس کیا تھا، مگر انجام ہاتھ سے پھسل گیا۔
فلم کے مکالمے ایسے ہیں جیسے کوئی مجذوب دل کی زبان بول رہا ہو۔ ایک مکالمہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا دل کے زخموں کو مزید ہرا کر دیتا ہے۔ کہانی آگے بڑھتی ہے مگر دیکھنے والے کی آنکھوں میں بار بار دھند اترتی ہے، جیسے کسی نے دل کی گہرائیوں کو چیر کر رکھ دیا ہو۔
اور پھر آتا ہے وصل، سنگم، ملاپ۔ "سیارہ" میں ہجر ضرور ہے مگر مختصر، جیسے صدیوں کے اندھیرے میں لمحے بھر کا دیا جل اٹھے۔ وہ ایک لمحہ جو سب کچھ بھلا دیتا ہے، مگر پھر فوراً بجھ بھی جاتا ہے۔
تماشائی جب پردہ گرنے کے بعد سینما ہال سے نکلتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنی ہی زندگی کی کوئی پرانی کہانی دوبارہ دیکھ آیا ہو۔ اس کے اندر ایک بوجھ بھی ہوتا ہے اور ایک لطیف سرشاری بھی۔ "سیارہ" کا جادو یہ ہے کہ یہ فلم ختم نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ گلیوں، سڑکوں، تنہائیوں، حتیٰ کہ ہماری نیند میں بھی۔
"سیارہ" ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ محبت کا اصلی جمال اس کی ناتمامی میں ہی چھپا ہوتا ہے۔ وصل کا لمحہ قیمتی ضرور ہوتا ہے، مگر اصل داستان وہ ہے جو جدائی کے لمحوں میں لکھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "سیارہ" محض ایک فلم نہیں بلکہ ایک ادبی استعارہ ہے، ایک نثری نظم ہے، ایک ایسی کہانی ہے جو ہر عاشق کے دل پر لکھی جا چکی ہے اور ہر عاشق بار بار اسے پڑھنے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔

