Pareshan Rehna, Ziada Pareshani Ko Dawat Deta Hai
پریشان رہنا، زیادہ پریشانی کو دعوت دیتا ہے
کہتے ہیں کہ ایک شخص ہر وقت پریشانی میں مبتلا رہا کرتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی بات کی پریشانی اُس کی نیندیں اُڑا دیا کرتی تھی۔ وہ شخص شادی شدہ تھا۔ اُس کی اِس عادت کیوجہ سے گھر والے بھی پریشان رہنے لگے تھے۔
ایسے ہی ایک دن اُس کا اپنی بیوی کی ساتھ جھگڑا ہوا۔ وہ منہ پھلائے پریشانی کے عالم میں اپنی گاڑی میں بیٹھا اور گھر سے نکل گیا۔ وہ حسبِ عادت پریشان تھا کہ رَستے میں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا جس کی وجہ سے اُس کی پریشانی مزید بڑھ گئی۔ اُس نے گاڑی سڑک کے ایک طرف پارک کی اور خود ہی ٹائر بدلنے لگا۔ اِس کام سے فری ہوا تو پھر آگے چل پڑا۔ تھوڑا آگے گیا تھا کہ ایک لڑکی لفٹ مانگتے ہوئے نظر آئی۔ اِس نے مدد نہ کرنے کے پچھتاوے سے بچنے کے لیے اُسے لفٹ دے دی اور اُسے پوچھنے لگا کہ آپ کو کہاں اُتارنا ہے۔ وہ لڑکی رونے لگ گئی تو یہ آدمی اور پریشان ہوگیا کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ وہ اُسے چپ کروانے لگا کہ لڑکی نے اچانک گاڑی میں اُلٹی کر دی، وہ شخص اِن حالات کے پیشِ نظر پریشانیوں کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔
اُس نے گاڑی کو فوراً ہسپتال والے روڑ کی طرف موڑا اور جلد ہی ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچ گیا۔ سٹاف اُس لڑکی کو چیک اپ کے لیے اندر لے گیا۔
وہ پریشان تھا لیکن پریشانیاں مزید بڑھتی چلی جا رہی تھیں۔ اب وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اللہ جانے یہ لڑکی کون ہے، کہاں رہتی ہے اور اب آگے کیا ہونے والا ہے؟ وہ اِنہیں سوچوں کے ساتھ جنگ لڑنے میں مصروف تھا کہ نرس نے باہر آ کر اُسے مبارکباد دی اور بتایا کہ آپ باپ بننے والے ہیں۔
یہ خبر اُس شخص پہ پہاڑ بن کے گِری، اُس نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ یہ میری بیوی ہی نہیں ہے تو نرس نے کہا کہ لڑکی نے تو ہمیں یہی بتایا ہے کہ آپ ہی اُس کے بچے کے باپ ہیں۔ یہ بات سن کر اُس آدمی کو لگا کہ آج تو پریشانی سے اُس کا دماغ پھٹ جائے گا۔ اُس نے کہا کہ میں اُس بچے کا باپ نہیں ہوں۔ لیکن لڑکی بَضد رہی کہ وہی اُس کے ہونے والے بچے کا باپ ہے۔
یہ لڑائی اِس حد تک بڑھی کہ بات DNA تک پہنچ گئی اور یوں اس شخص نے جب DNA کروایا تو یہ معلوم پڑا کہ وہ شخص اُس ہونے والے بچے کا باپ تو کیا وہ اپنی پوری زندگی میں کبھی باپ نہیں بن سکتا کیونکہ وہ باپ بننے کے لائق ہی نہیں ہے۔
اِس بات نے اُسے تباہ کن صورتحال میں ڈال دیا تھا۔ وہ پریشان ہوگیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں باپ ہی نہیں بن سکتا۔ یہ کتنے دکھ اور فکر کی بات ہے۔ ابھی وہ اِسی سوچ میں پریشان تھا کہ اچانک اُسے یاد آیا کہ اگر وہ باپ بن نہیں سکتا تو پھر گھر میں موجود پانچ بچے کس کے ہیں؟ اور یوں وہ پریشانیوں کے دلدل میں دھنستا چلا گیا۔
پریشان کون نہیں ہوتا؟ سبھی ہوتے ہیں۔ یہ زندگی مشکل بھی ہے اور آسان بھی، لیکن پریشانیوں کو ہر وقت سر پہ چڑھائے رکھنا قطعاً دانشمندی نہیں ہوتی۔ جب ہم کسی لطیفہ پر بار بار ہنس نہیں سکتے تو پھر کسی ایک دکھ کو لیکر پریشان کیوں رہیں؟
ایک دکھ آتا ہے تو اللہ دو خوشیوں سے نواز دیتا ہے۔ زندگی کی خوبصورتی اِسی غم اور خوشی کے اُتار چڑھاؤ کے حسین امتزاج کا نام ہی تو ہے۔ باقی اگر آپ نے ہر وقت پریشان رہنا ہے تو اِس کہانی کا انجام دیکھ لیں جو کہ ساری عمر کا پچھتاوا ڈالنے کے لیے کافی ہے۔