Ni Main Sass Kutni
نِی میں سس کُٹنی
یہ رِیت ازلوں سے چلی آ رہی ہے، یا مجھے یہ کہہ لینے دیجیے کہ جب سے اِس دنیا میں شادی کی رِسم وجود میں آئی ہے، شاید تب سے یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے۔ ساس اور بہو انسانی رشتوں میں دو پاپولر رشتے ہوتے ہیں۔ اِن کے مشہور ہونے کی سب سے بڑی وجہ اِس رشتے کے بیچ ہمیشہ رہنے والی ناچاقی ہے۔ بدگمانیاں ہیں، نفرت ہے۔
اِس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک ساس اپنی بہو سے تنگ آ کر اُسے الگ الگ طریقوں سے ٹارچر کرتی ہے۔ اُسے اپنی بہو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ پھر اِسی فلم کا ایک سین جو کہ سیدھا میرے دل پہ لگا وہ یہ کہ مظلوم بہو اپنی ساس کی ساس سے یہ سوال پوچھتی ہے کہ "جب آپ کی ساس آپ پہ ظلم کیا کرتی تھی تب آپ کا کیا ردِ عمل ہوا کرتا تھا یا آپ اِس چیز کو کیسے manage کیا کرتی تھیں تو اُس بُڑھیا خاتون کا جواب سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
وہ معمر خاتون فرماتی ہیں کہ اِس میں زیادہ پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔ تم اپنے بیٹے کی شادی کروا دو اور اپنی ساس کا سارا غصہ تم اپنی بہو پہ نکال لیا کرنا۔ یعنی جب جب تمہاری ساس تم پہ ظلم کیا کرے گی تم وہی سلوک اپنی بہو کے ساتھ کر لیا کرنا۔ سادہ سا حل ہے اِس بات کا۔
پھر وہ اپنی بولیوں میں بھی اِس چیز کا ذکر کرتے ہوئے بولیاں گاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ "نی میں سس کُٹنی، کُٹنی صندوقاں اولے"۔
اِسی رِسم کو جاری رکھتے ہوئے پہلے بہو مار کھاتی ہے اور پھر دوسری بار میں بہو اپنی ساس کی پھینٹی لگاتی ہے۔ اور یہ معاملہ ایسے ہی قسط وار تسلسل کے ساتھ شروع دن سے چلتا آ رہا ہے۔
یہ ہمارا کلچر بن چکا ہوا ہے۔ کینسر کی طرح ہماری رَگوں میں دوڑنے لگا ہے کہ ساس بہو کبھی اتفاق کے ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ آج کی بہو جب ظلم سہے گی تو وہ ساس بن کر اپنی بہو سے اِس ظلم کا بدلہ ضرور لے گی۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ٹارچر سیل سرکل ریلیشن بن چکا ہوا ہے کہ جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔
بہو جیسے سلوک کا سامنا آج کرے گی، بالکل ویسا ہی سامنا مستقبل میں آنے والی اُس کی بہو کو بھی کرنا پڑے گا اور اِن سب کے بیچ پِستا کون ہے، "مرد"!
جنگ دو عورتوں کے بیچ چِھڑتی ہے مگر نقصان صرف مرد کا ہو رہا ہوتا ہے۔ اِن دونوں عورتوں کا رشتہ جس قدر عظیم ہوتا ہے یہ اُتنا ہی زیادہ مرد کو اذیت میں مبتلا کرتی ہیں۔ بیوی کہتی ہے کہ شوہر میرا ہے، ساس کہتی ہے کہ بیٹا میرا ہے اور اِس ہونے والی جنگ میں دونوں کو اپنی جیت کی اِس قدر فکر ہوتی ہے کہ دونوں ہی مرد کی تکلیف کا اندازہ نہیں لگا پاتیں یا یہ کہہ لیجیے کہ وہ دونوں جاننا ہی نہیں چاہ رہی ہوتیں کہ اِن کی نام نہاد اَنا کی جنگ میں ایک فرمانبردار بیٹے اور ایک ذمہ دار شوہر کو ذہنی طور پر مسلسل اذیت مِل رہی ہوتی ہے۔
اِسی جنگ کی بِنا پر وہ مرد نہ تو اچھا بیٹا تصور کیا جاتا ہے اور نہ ہی اچھا شوہر۔ جبکہ یہ جنگ اُس بیچارے نے شروع بھی نہیں کی ہوتی۔ وہ تو بس اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے۔
کیا لگتا ہے کہ یہ ساس بہو کی جنگ کا کلچر کب ختم ہوگا؟ کیا تا قیامت ایسے ہی رہے گا؟ یا سدھار پیدا ہونے کے کوئی چانسز آپ کو نظر آ رہے ہیں؟
نوٹ: ساس بہو کے اچھے تعلقات کے غیر معمولی واقعات سنانے سے گریز کیجیے گا کیونکہ یہاں بات اکثریت کی ہو رہی ہے۔