Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Nand, Bhawaj, Jeeta Kon?

Nand, Bhawaj, Jeeta Kon?

نند، بھاوج، جیتا کون؟

کان کھول کر سُن لو تم۔ میں خبردار کر رہی ہوں کہ اگر اس عید پہ بھی تم نے اپنی بہنوں کو مہنگے سوٹ لیکر دیے تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔ نائلہ اپنے شوہر پہ خوب بھڑک رہی تھی جبکہ عادل پوری طرح سے خاموش تھا۔ اِن دونوں کی شادی کو چار سال بیت چکے تھے مگر ان چار سالوں کی طوالت بھی نائلہ کے دل میں اپنی نندوں کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے سے قاصر رہی تھی۔ آئے دن کے لڑائی جھگڑوں نے گھر کا ماحول کسی تھانے کچہری کی طرح بنا رکھا تھا۔ ویسے بھی نائلہ کی تین نندیں تو اپنا پیا گھر سدھار چکی تھیں اب بس ایک ہی نند کنواری تھی اور وہ اُس کے ساتھ بھی ہر وقت اُلجھتی رہتی تھی۔

عادل اکلوتا تھا اور والدین بہت پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور یوں ساری بہنوں کا بوجھ اکیلے عادل کے کندھوں پہ آ گیا تھا۔ بہنوں کی آس، فخر، مان اور والدین کا پیار سب کچھ اب عادل ہی تو تھا مگر نائلہ اِن چیزوں کو کسی طور بھی سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔ اُسے اپنی نندوں سے جانے کون سا بیر تھا جو کسی طور بھی رام ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ بہنیں اپنے بھائی سے آس لگائے بیٹھے تھیں اور ادھر نائلہ نے اپنا گھر اُجاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں اُٹھا رکھی تھی۔ عادل صرف اپنی بیٹی کی وجہ سے خاموش ہو جاتا تھا ورنہ وہ کب کا نائلہ کو چھوڑ چکا ہوتا اور شاید نائلہ بھی اِسی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہی ہوتی تھی۔

بیسویں روزے عادل، نائلہ کے علم میں لائے بغیر ہی اپنی بہنوں کے گھر جا کر اُنہیں نقدی دے آیا تھا تاکہ وہ اپنی مرضی سے اُسے خرچ کر سکیں جبکہ نائلہ کو دکھانے کے لیے الگ سے کم کوالٹی کے سستے کپڑے خرید لیے تھے تاکہ اُسے کوئی شک نہ ہو سکے اور بعد میں وہ یہ کپڑے بھی اپنی بہنوں کو دے آیا تھا۔ پھر پچیسویں روزے جب نائلہ کے بھائی بھابھی اُسے عیدی دینے گھر پہنچے تو نائلہ اپنے بھائی کے صدقے واری ہو رہی تھی جبکہ اُس کی بھابھی کا موڈ اُس کے ساتھ بس روکھا روکھا ہی تھا۔

نائلہ جانتی تھی کہ اُس کی بھابی اُسے پسند نہیں کرتی لیکن بھائی اچھا تھا اِسی لیے تو گھر عیدی دینے خود چل کر آیا تھا۔ نائلہ کپڑوں کا بیگ دیکھ کر بہت خوش ہو رہی تھی۔ جب بھائی بھابی واپس چلے گئے تو اس نے فوراً کپڑوں والا بیگ اٹھا کر سوٹ باہر نکالا تو اُس کی کم کوالٹی اور گھٹیا کپڑا نائلہ کا منہ چِڑا رہا تھا۔ وہ جانتی تھی ایسا سوٹ کس کے کہنے پہ خریدا گیا ہے۔ وہ جل بُھن کے رہ گئی تھی اور اُسے رہ رہ کر اپنی بھابھی کی چالاکیوں پہ غصہ آ رہا تھا۔

Check Also

Mehar o Wafa Ke Baab

By Ali Akbar Natiq