Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Makafat e Amal Tha Ya Kuch Aur

Makafat e Amal Tha Ya Kuch Aur

مکافاتِ عمل تھا یا کچھ اور

وہ تین لڑکوں کا گروپ تھا۔ وہ تینوں روزانہ اپنے مقررہ وقت پر اپنی بس پر سوار ہو جاتے۔ نام اللہ جانے اُن کے اچھے تھے یا نہیں مگر کرتوت بہت ہی بُرے تھے۔

(جن کا ایسا کوئی تجربہ نہیں ہے اُن کے لیے بتاتا چلوں کہ لوکل وہ بسیں جو کہ روزانہ پچاس ساٹھ کلو میٹر کے چھوٹے روٹ پر چلتی ہیں، اسکول کالج کی چھٹی کے وقت اُن میں بہت زیادہ رَش ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے زیادہ سواریوں کو بس میں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے)۔

وہ تینوں اُس وقت ہی بس پر سوار ہوتے جب گاڑی چلنا سٹارٹ ہوتی اور اُس وقت بے تحاشا رَش کی وجہ سے زیادہ تر سواریاں جن میں مرد و عورت سب یکساں طور پر کھڑے ہو کر ہی سفر کرتے۔ تینوں اپنا الگ الگ ہدف سیٹ کرتے اور اُن کے پاس پہنچ جاتے۔ اُن کا ہدف کوئی لڑکی یا تیس پینتیس سال والی آنٹی ہوتی۔ یہ اُن کی پچھلی طرف کھڑے ہو جاتے۔ چونکہ یہ بسیں چھوٹے روڑز پہ چلتی ہیں تو وہ سڑکیں بہت سے کھڈوں پر بھی مشتمل ہوتی ہیں اور بار بار کھڈے اور ہر تھوڑی دیر بعد سواری کو اُٹھانے یا اُتارنےکی غرض سے بریک لگانا پڑتی اور اِسی بریک اور خوب رَش کا یہ تینوں خوب فائدہ اُٹھاتے۔

یہ عورت کے جسم کے ساتھ اپنے جسم کو بار بار ٹچ کرتے۔ زیادہ تر عورتیں شرم و حیاء یا عزت کی وجہ سے چپ چاپ یہ سب برداشت کر لیا کرتیں اور کوئی ایک آدھ بہادر بھی ہوتی تو بس خبردار ہی کیا کرتی کہ مجھ سے دور رہو۔ وگرنہ زیادہ تر شکار خاموشی سے خود ہی اِن کا نوالہ بن جایا کرتے۔ یہ عورت کی پشت، تشریف کے ساتھ اپنے غلیظ سوچ کو مسلتے رہتے اور یہی اِن کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ایک بار تو تینوں ملکر ایک بیچاری طالبہ کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب بھی کر چکے تھے۔ روزانہ کی بنیاد پر وہ یہی بےغیرتی کیا کرتے تھے۔ ایک دو بار کیس وغیرہ بنا بھی مگر جلد ہی چھوٹ گئے۔

وقت نے پانسا پلٹا، سالوں بیتے اور یہ خود اولاد والے ہو گئے۔ اِن میں سے ایک خاصا امیر تھا، اُس کے پاس گاڑی بھی تھی لیکن اُس کے باوجود اُس کی بیٹی بسوں پہ ہی سفر کیا کرتی۔ یہ لاکھ سمجھاتا کہ بیٹی جب گاڑی پاس ہے تو کیوں بسوں پہ کھجل ہوتی ہو تو وہ سہیلیوں کا کہہ دیتی کہ اُن کی وجہ سے اُسے بسوں پہ سفر کرنا اچھا لگتا ہے اور وہ اپنی گاڑی یا پیسے کا اپنی دوستوں پہ رعب نہیں جھاڑنا چاہتی۔

ایک دن اُسی آدمی کی گاڑی خراب ہوگئی اور اُسے بحالتِ مجبوری بس پہ سفر کرنا پڑا۔ جب وہ بس میں بیٹھا تو اُسے سب یاد آنے لگا کہ کیسے وہ دوستوں کے ساتھ ملکر گندہ اور گھناؤنا کھیل کھیلا کرتا تھا۔ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے لگا۔ اچانک اُس کی نظر اپنی بیٹی پر پڑی جو اُسی بس میں کھڑے ہو کر سفر کر رہی تھی اور اُس کے ساتھ ایک لڑکا وہی حرکتیں کر رہا تھا جو وہ جوانی میں کیا کرتا تھا اور اُس کی بیٹی اِن حرکات سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور اُس کا دل کیا کہ یہیں زمین پھٹے اور وہ اس میں غرق ہو جائے۔

اُن میں سے ایک کی بیٹی میٹرک کلاس میں ہی کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور ایک کی طوائف بن گئی تھی۔ وہ دونوں بھی مکافات کی چلتی چکی میں پِس رہے تھے۔ پل پل تڑپ رہے تھے مگر زندگی سکون چھین کر اُن کے دامن میں پچھتاوؤں اور مکافات عمل کے کانٹے ڈال چکی تھی۔ وہ تینوں شاید نہیں جانتے تھے کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل کے قانون پہ چل رہی ہے۔ جو بوو گئے وہی کاٹو گے اور جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

Check Also

Imran Khan Ya Aik Be Qabu Bohran

By Nusrat Javed