Lover
لور
جیسے ململ کے کپڑے کو کسی کانٹوں سے بھرپور لدی ہوئی جھاڑی پہ رکھ کر بڑی بےدردی سے کھینچا جائے نا، بالکل ویسی ہی اذیت سے دوچار ہوا ہوں میں یہ فلم دیکھ کر۔
"لور، Lover " بہت ہی عمدہ اور شاہکار فلم ہے۔ محبت کے خمیر سے گندھی ایک لاجواب کہانی اور میں جو محبت کو اِس دنیا کا سب سے بڑا نشہ کہتا آیا ہوں تو یہ فلم دیکھ کر میرا یقین اور بڑھ گیا ہے۔۔!
محبت وہ دلگداز احساس ہے۔ جو جوان ہوتے ساتھ ہی ہمارے دل میں پنپنے لگ جاتا ہے۔ چاہنا اور چاہ جانا کسے اچھا نہیں لگتا۔ کوئی ایسا چہرہ ہوتا ہے جو دل کو پہلی ہی نظر میں بھا جاتا ہے اور پھر دن رات بس اسی محبوب کے خیال میں ہی گزرنے لگتے ہیں۔ اس فلم میں بھی وہی ہوا، لالی کو ہیر سے پیار ہوگیا، وہ پیار جو پاگل کر دیتا ہے، جو کسی جوگا نہیں چھوڑتا۔
اِس فلم نے محبت سے عشق تک کا سفر بڑی خوبصورتی سے طے کیا ہے۔ جو کہ دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھتا ہے۔۔
جب کوئی اِنسان بڑا سست، ڈھیلا ڈھالا اور اَدھ موا سا دکھائی دینے لگے تو سب سے پہلے اس کا ماتھا یا کلائی دیکھ کر اس کا بخار چیک کیا جاتا ہے کہ آیا اس کی طبیعت میں یہ تبدیلی کہیں بخار کی وجہ سے تو نہیں ہو رہی۔
بالکل ویسے ہی انسان جب بے وجہ ہنسنا شروع کر دے، جہاں بیٹھے تو بیٹھا ہی رہ جائے، کھڑا ہے تو کھڑا رہ جائے تو فوراً سب کے دماغ میں ایک ہی بات آتی ہے کہ کہیں اِسے محبت نے تو نہیں آ لیا۔
اور جب کوئی صبح دیر تک سونے والا انسان اچانک تہجد کے وقت اٹھنے لگ جائے، باوضو رہے اور نمازی ہو جائے تو پھر یہی گمان سر اُٹھانے لگتا ہے کہ ہو نہ ہو اس بدبخت کو ہجر چمٹ گیا ہے۔ اور ہجر کا جِن کسی پیر فقیر سے نہیں نکلتا، اس کا تو بس ایک ہی تعویز ہوتا ہے "وصلِ یار"۔۔!
لالی کے ماں باپ بھی لالی کو سمجھا بجھا کر اور اپنی غربت اور ثقافت کے بارے میں بتا کر خود کو یہ یقین دلانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ اب وہ محفوظ ہے مگر ہائے اُن کی معصومیت کہ وہ اِس "کمبخت محبت" سے لالی کو نہ بچا سکے۔ شاید ایسا کوئی ٹوٹکہ بھی تو کوئی ابھی تک ایجاد ہی نہیں کر سکا کہ جو محبت سے بچاؤ اور حفاظت کا ضامن نکلے۔۔
جوانی کی سب سے بڑی دشمن "محبت" سے بھلا کس کا بیٹا بچ پایا ہے۔ آج تک اِس جذبے نے تو جانے کتنی ہی ماؤں کی "کوکھ" اُجاڑ کے رکھ دیں ہیں۔۔ اور یہ کام اب بھی جاری و ساری ہے۔
"یہ عشق نہیں آساں
بس اِتنا سمجھ لیجیے
اِک آگ کا دریا ہے
اور ڈوب کے جانا ہے"۔
محبت اپنے آپ میں ایک بہت بڑا سکینر ہوتی ہے۔ یہ چوری کھانے والے اور خون دینے والے مجنوؤں کو فوراً پہچان لیتی ہے۔ اِس کا نظام اِتنا سخت ہوتا ہے کہ یہاں کسی کی سفارش نہیں چلتی۔
یہاں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بھی منہ اُٹھا کر آئے اور محبت کا دعویٰ کرکے محبت لے جائے۔ محبت ٹھیک ٹھاک امتحان لیتی ہے اور اِس امتحان میں وہی شخص امتیازی نمبروں سے پاس ہوتا ہے۔ جو خود کی ذات کی نفی جلدی کر لیتا ہے۔
محبت تھیوری کی بجائے عملی کام کرنے والوں کو زیادہ پسند کرتی ہے۔ اور یوں وہ آخرِکار خود کو کسی ایک شخص کے سپرد کر دیتی ہے۔
جیسے لالی اور ہیر کی محبت اس فلم میں امر ہو جاتی ہے۔
نوٹ: اگر آپ اس فلم کا اختتام دیکھ کر نہ روئے تو آپ سے بڑا پتھر دل کوئی نہیں ہے۔