Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Jo Aap Kar Sakte Hain, Wo To Karen

Jo Aap Kar Sakte Hain, Wo To Karen

جو آپ کر سکتے ہیں، وہ تو کریں

ہمارے آس پاس ایسے بہت سے کردار ہوتے ہیں کہ جو ہر وقت ناشکری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ غربت کا رونا روتے ہیں تو کچھ رشتے داروں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ پھر ہمیشہ ایسا کرتے ہی نظر آتے ہیں۔ ساری زندگی ان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ جبکہ ان کے مسائل کا حل بڑا سادہ اور آسان ہوتا ہے۔

انہیں بس اتنا کرنا ہے کہ جو کچھ ان کے بس میں ہے وہ کر دیں اور جو بس میں نہیں ہے، اس کے حل کے لیے محنت کریں اور رونا دھونا بند کر دیں۔ اگر آپ کے منہ سے بدبو آتی ہے تو برش کرنا شروع کر دیں۔ اس میں بتانے والے سے گلہ کرنے کے کوئی تُک نہیں بنتی۔

خود کو نیچا دکھانا بند کریں۔ یاد رکھیں کہ لوگ بھی انہیں شخصیات کی مدد کرنا یا ان کے پاس بیٹھنا پسند کرتے ہیں، جن کا بھاؤ بھید مثبت اور اچھا ہوتا ہے۔ آپ کی قمیض کے بٹن ٹوٹ گئے ہیں تو نئے لگائے جا سکتے ہیں۔ کپڑے پرانے ہیں تو کیا ہوا؟ اُنہیں استری کرکے پہنا جا سکتا ہے۔ آپ کی لُک اچھی ہو جائے گی۔ جوتا ٹوٹ گیا ہے تو ٹھیک کروایا جا سکتا ہے۔ بال بڑھ گئے ہیں تو چھوٹے کروائے جا سکتے ہیں۔

یعنی دیکھا جائے تو بہت ساری چیزیں ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ ہم انہیں بڑی آسانی سے ٹھیک کر سکتے ہیں، مگر ہم ٹھیک نہیں کرتے۔ ہمیں لوگوں کے آگے خود کو نیچا دکھانا زیادہ بہتر لگتا ہے۔ ہمیں ہمدردیاں سمیٹنے کی بری لَت لگ چکی ہے۔ ہم یہی چاہ رہے ہوتے ہیں کہ لوگ ہمارے اوپر ترس کھائیں کہ آیا ہم واقعی بڑی مصیبت میں ہیں، جبکہ ایسا کرنا سراسر خود سے دشمنی کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔

بھئی جو ہمارے بس میں ہے ہم وہ تو کر ہی سکتے ہیں۔ تو کیوں نا وہ کر لیا کریں اور ایسا کرنے سے ہمارے لیے ہی آسانیاں پیدا ہونگی اور ہم بہتر سے بہتری کیطرف چلنا شروع کر دیں گے۔ ہمیں عقل آتی جائے گی اور آہستہ آہستہ یہ مکمل سمجھ بھی آ جائے گی کہ لوگوں کی ہمدردیاں اصل میں بڑی خطرناک ہوتی ہیں۔

ہم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ ہر وقت خود کو لاچار دکھانے سے ہم لاچار ہی رہ جائیں گے۔

تو آئیں اور عہد کریں کہ آج کے بعد ہم ایسی چیزوں کے لیے نہیں روئیں گے، جو ہم کر نہیں سکتے۔ جو کچھ ہمارے بس میں ہے ہم وہ سب کریں گے ان شاءاللہ اور آئندہ ہمدردیاں سمیٹنے سے باز رہیں گے۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

By Zia Ur Rehman