Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Jitna Mumkin Ho Sake Ehsaan Sa Bachen

Jitna Mumkin Ho Sake Ehsaan Sa Bachen

جتنا ممکن ہو سکے، احسان سے بچیں

یہ پرانے وقتوں کی بات ہے، عابی نائی نے حسبِ معمول صبح سات بجے اپنی دکان کھولی اور بسم اللہ پڑھ کر اندر داخل ہوگیا۔ سب سے پہلے جھاڑو پونچھا کیا پھر دکان کے سامنے پانی کا تروکا لگایا اور پھر شیشے اور کرسیوں کی صفائی وغیرہ کرکے اپنی سیٹ پہ بیٹھ کر گاہک کا انتظار کرنے لگا۔

اچانک دکان کے سامنے ایک سفید کاٹن کا سوٹ پہنے کوئی معتبر شخصیت نے اپنا سائیکل روکا اور اسٹینڈ پر لگا کے اندر چلا آیا۔

جی آیاں نوں چوہدری صاحب۔ ایتھے کرسی تے بیٹھو۔ دَسو کی کرنا اے؟ عابی فوراً اپنی سیٹ سے اُٹھتے ہوئے بولا۔

کچھ خاص نہیں جناب، بس یہ شیو کر دیں، مجھے ایک شادی پر جانا ہے۔ آنے والے بظاہر معزز انسان نے نرم لہجے میں بتایا۔

جی ابھی کر دیتے ہیں شیو۔ آپ بس بیٹھنے والی بات کریں اور ساتھ ہی عابی برتن میں نیم گرم پانی ڈال کر صاحب کی داڑھی پر مَلنے لگا۔

عابی نے چوہدری صاحب سے خوب گپ شپ کی۔ جب شیو بن گئی تو وہ صاحب سو روپے کا نوٹ دیکر بقایا لیے بغیر ہی نکل گئے۔ کچھ دن گزرے تو چوہدری صاحب پھر تشریف لے آئے، لیکن اِس بار نئے سائیکل پر تھے۔ پھر شیو بنوائی اور بقایا لیے بغیر پھر چل دیے۔

عابی کے دل میں چوہدری صاحب کے لیے عزت بڑھنے لگی۔ وہ سوچنے لگا کہ چوہدری صاحب اللہ کے کتنے نیک بندے ہیں۔ صرف شیو کرواتے ہیں اور بقایا پیسے بھی نہیں لیتے اور انعام کے طور پر دے کے چلے جاتے ہیں۔ وہ چوہدری صاحب کی اِس نیکی سے بہت متاثر ہوا تھا۔

آج چوہدری صاحب کافی دنوں بعد دکان پر آئے تو عابی نے پوچھ لیا کہ صاحب جی سب خیریت تو ہے نا؟ بڑے عرصے بعد تشریف لائے ہیں تو چوہدری صاحب نے کہا کہ ہاں جی سب ٹھیک تھا۔ عابی نے شیو کر دی تو وہ باہر بینچ پہ جا کر بیٹھ گئے جیسے کسی کا انتظار کر رہے ہوں۔ جب کافی وقت گزر گیا تو عابی نے ڈرتے جھجھکتے اُن سے پوچھا کہ چوہدری صاحب بُرا نہ منائیں تو ایک بات ہوچھوں؟ آپ کافی دیر سے یہاں بیٹھے ہیں، کوئی آنے والا ہے کیا،؟

ہاں وہ میرے ملازم نے مجھے لینے آنا تھا مگر ابھی تک آیا نہیں۔ میں اُسی کے انتظار میں تھا۔ اللہ جانے کہاں رہ گیا ہے؟ چوہدری صاحب نے جواب دیا۔

بس اِتنی سی بات، جناب اگر آپ کی عزت میں کوئی فرق نہ آئے تو آپ میری سائیکل لیجا سکتے ہیں، بس زرا پرانی ہے باقی چلتی تو ٹھیک ہے۔ عابی نے التجاء کی۔

ہاں یہ مشورہ ٹھیک ہے۔ چلو میں تمہارا سائیکل لیجاتا ہوں اور یوں چوہدری صاحب، عابی کا سائیکل لیکر چلے گئے۔

ایک دن گزرا، دوسرا بھی اور اس طرح کافی دن گزر گئے، مگر چوہدری صاحب عابی کا سائیکل لیکر واپس نہ لوٹے۔ عابی بڑا پریشان رہنے لگا۔ اُس کے لیے اپنی دکان پر آنا جانا مشکل ہوگیا تھا۔

پھر ایک دن چوہدری صاحب حاضر ہوئے اور وہی حسبِ عادت شیو بنانے کا کہا، تبھی عابی نے لڑکھڑاتے پوچھا کہ جناب وہ میرا سائیکل آپ لیکر گئے تھے، وہ واپس نہیں آیا۔ اصل میں مجھے آنے جانے میں بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وگرنہ نہ پوچھتا۔

کیا؟ رحمت علی تمہیں سائیکل دیکر نہیں گیا؟ جبکہ میں نے تو اُسے اُسی دن تمہاری طرف بھیج دیا تھا۔ چوہدری صاحب حیرانگی سے بولے۔

چلو خیر تم ایسا کرو کہ بازار سے بالکل نئی سائیکل تیار کروا لو، میں پیسے دے دیتا ہوں۔

عابی کی تو جیسے باچھیں کھل گئیں۔ پرانے سائیکل کے بدلے بالکل نیا سائیکل ملنے جا رہا تھا۔ وہ بھاگا بھاگا گیا اور سائیکل تیار کروا لیا۔ چوہدری صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔

عابی نے سائیکل دیکھا تو چوہدری صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے بولا کہ جناب آپ کا اِس سائیکل پر مجھ سے بھی پہلے حق ہے تو مجھے خوشی ہوگی اگر آپ پہلے اِس کی سواری کرتے ہیں اور سائیکل، چوہدری صاحب کو پیش کر دیا۔

چوہدری صاحب خوشی سے اُس سائیکل پر بیٹھے اور پیڈل مارتے ایک طرف لے گئے اور پھر واپس نہ پلٹے۔ عابی وہاں انتظار ہی کرتا رہ گیا اور یوں اُسے اپنے اور اس نئے سائیکل کے نقصان کی بھرپائی کرنا پڑی۔ پہلے چند پیسوں اور پھر نئے سائیکل کے لالچ کی وجہ سے اُسے معاشی لحاظ سے بڑا دھچکا لگا۔ وہ برباد ہو کر رہ گیا تھا۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔

اُسے اب احساس ہوا تھا کہ بقایا پیسے نہ لینا چوہدری صاحب کے پلان کا حصہ تھا۔ اُنہوں نے دانہ ڈالا اور عابی آسانی سے پھنس گیا۔ عابی کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ آیا وہ شخص چوہدری بھی ہے کہ نہیں اور یہ بھی پتہ نہ تھا کیا کہ وہ کس علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔

اِسی طرح ہم اپنی زندگی میں ملنے والے اچانک فائدے بخوشی قبول کرنے لگتے ہیں، بغیر سوچے سمجھے یا یہ جانے کہ آیا جو فائدہ ہمیں مل رہا ہے، اُس کی وجہ کیا ہے؟ آخر کیوں کچھ الگ ہو رہا ہے؟ کوئی اجنبی یا غیر شخص اگر پاس آ رہا ہے یا پینگیں بڑھا رہا ہے تو وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ کوئی احسان کیوں کرنے لگتا ہے، یہ سب ہونے لگے تو کئی سوال جنم لیتے ہیں لیکن ہمارے آنکھوں پہ لالچ کی پٹی بندھ جاتی ہے اور یوں ہم حقیقت دیکھنے سے باز رہتے ہیں۔ دماغ سوچنا بند کر دیتا ہے اور لالچ ہمیں بھرپور نقصان سے دوچار کروا دیتا ہے۔

ہم شاید یہ بھی بھول جاتے ہیں یا یاد ہی نہیں رکھنا چاہتے کہ مفت میں ملنے والی کوئی بھی شے بڑی مہنگی پڑتی ہے۔ کوئی قریب آنے لگے تو سمجھ جائیں کہ آپ غیر محفوظ ہیں۔ کسی بھی اجنبی کی ہمدردی، مدد یا اچھائی پر جلدی یقین نہ کریں۔ یاد رکھیں کہ احسان کرنے والا، احسان کے بدلے بڑی مہنگی قیمت وصول کیا کرتا ہے۔ اِسی لیے کوشش کریں کہ بےشک تھوڑے ہی میں خوش رہیں، مگر کسی کا احسان نہ لیں اور لالچ سے پرہیز رکھیں۔

Check Also

Science Aur Mazhab

By Muhammad Saeed Arshad