Iss Se Pehle Ke Qayamat Aye, Jaag Jayen
اِس سے پہلے کہ قیامت آئے، جاگ جائیں
سانپ جب حملہ کرتا ہے تو اپنے شکار کو ڈنک مارنے کے ساتھ ہی اُس کے گرد لپٹ کر اُسے بےبس کر دیتا ہے تاکہ وہ بھاگ نہ سکے اور دوسرا وہ اپنی گرفت میں اِتنی سختی لاتا ہے کہ شکار کا سانس لینا مشکل کر دیتا ہے اور وہ دَم گھٹنے سے مر جاتا ہے۔ سانپ اپنا شکار کرتے وقت اپنے زہر کے ساتھ ساتھ اپنی مضبوط گرفت کا بھی سہارا لیتا ہے۔ بالکل اِسی طرح نفسا نفسی نے ہمارے معاشرے کو ڈنک مار دیا ہے اور بےحسی نے اپنی مضبوط گرفت میں جکڑ لیا ہے۔ معاشرہ اپنے آخری دَموں پر ہے۔
اگر دماغ کی سوچوں اور نیت پر لالچ کی گَرد جم جائے تو ندامت کے آنسوؤں سے ہی وجود پاک ہوا کرتے ہیں۔ مگر ہماری آنکھیں پتھر کی ہوگئی ہیں۔ ندامت اور شرم کی پھپھوندی نے دلوں میں اپنے جالے بُن لیے ہیں۔ ضمیر پہ پیسوں کی شدید برف باری سے غیرت جَم گئی ہے۔ وجود لالچ کے گہرے گڑھوں میں دفن ہو گئے ہیں۔ محبت پیاس سے زندہ رہتی ہے، سیراب ہو جائے تو مر جایا کرتی ہے اور سچ پوچھیں تو ہمارے معاشرے میں محبت مر گئی ہے کیونکہ محبت کو سیراب کر دیا گیا ہے۔ دولت کی فراوانی سے، بدلتے دور سے، مشینوں سے، موبائلوں سے، سونے سے، مہنگے کپڑوں سے، برانڈڈ جوتوں سے، بڑے ہوٹلوں سے اور کوٹھیوں سے کاروں سے محبت کو مار دیا گیا ہے۔
ہماری روایات اور دستاریں کئی محبتوں کو کھا گئیں ہیں۔ انسانیت کے احساس کو ساون کے موسم میں جدید دور کے سانپوں نے نگل لیا ہے۔ ہم نے اپنے اندر کی زنبیل کو نفرت کے خزانوں سے بھر لیا ہے۔ ہم اِتنے برے ہیں کہ خود کے اندر ہی نقب لگا کر محبت کی تجوریاں خالی کر چکے ہیں۔ ہم بھول چکے ہیں کہ معاشرے میں نفرت پھیل جائے تو دلوں کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی بن جایا کرتے ہیں۔ جہاں محبت پھر جنم نہیں لیا کرتی، اگر پیدا ہو بھی جائے تو لولی لنگڑی ہوا کرتی ہے۔
ہمیں جرم کا احساس بھی نہیں ہو رہا، ہمارے گھروں کو دوریوں کی آگ جلا رہی ہے اور ہم انا کے پنجرے میں قید بس تماشا دیکھنے میں لگے ہیں۔ ہمارے رشتوں پہ خود غرضی کی آکاس بیل بڑی ہوتی جا رہی ہے اور ہم بےبس ہیں۔ ہم اپنے ذہنوں میں اپنوں کی ہی قبریں کھود چکے ہیں مگر قتل کرنے کا اعتراف نہیں کر رہے۔ ہم قاتل بن چکے ہیں۔ یہ معاشرہ چلتے پھرتے قاتلوں کا شہر بن چکا ہے۔ لیکن انصاف کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ عدل بک رہا ہے۔ دولت انصاف کا ننگا ناچ دیکھنے میں مصروف ہے۔ اور ہم یہ سوچ کر مطمئن ہیں کہ کون سا ہمارا کوئی نقصان ہو رہا ہے اوربس یہی سوچ اِس پتھر معاشرے کی تباہی کی وجہ ہے۔
ہمیں جاگنا ہوگا ورنہ کچھ باقی نہیں بچے گا۔ سب مٹ جائے گا، سب ختم ہو جائے گا۔ اِس سے پہلے کہ قیامت آ جائے ہمیں اپنے ضمیر جگا لینے چاہئیں۔