1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Hum Bhi Sabzi Walay Hain

Hum Bhi Sabzi Walay Hain

ہم بھی سبزی والے ہیں

کہتے ہیں کہ کسی محلے میں عرصہ دراز سے ایک سبزی والا روزانہ سبزی بیچنے آیا کرتا تھا۔ محلے کی تقریباً سبھی عورتیں اُس سے سبزی لیا کرتی تھیں۔ وہ ویسے تو زیادہ نقد ہی سبزی خریدا کرتیں مگر زیادہ عرصے سے گاہک ہونے کے ناطے وہ کبھی کبھار ادھار بھی کر لیا کرتی تھیں، جس کی تفصیل سبزی والا اپنی کاپی پر لکھ لیا کرتا تھا اور وہ جب اپنے کھاتے کے متعلق پوچھا کرتیں تو سبزی والا ٹھیک ٹھیک پیسے بھی بتا دیا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے محلے کی تمام عورتیں اِسی شش و پنج میں مبتلا تھیں کہ آخر وہ سبزی والا ادھار کے پیسے یاد کیسے رکھ لیتا ہے کہ کس کی طرف کتنے بنتے ہیں۔ جبکہ وہ اُن کے نام سے بھی واقف نہیں تھا۔ جو عورت بھی پیسے پوچھا کرتی وہ اُسے بالکل ٹھیک اماؤنٹ بتا دیتا تھا۔

آخر اُن عورتوں نے اِس سسپنس سے جان چھڑانے کے لیے ایک میٹنگ بلائی اور پلان تیار کر لیا۔ اگلے دن جب سبزی والا آیا تو سب نے اکٹھے دھاوا بول دیا اور ایک دو عورتوں نے سبزی والے کو سبزی کے بھاؤ تاؤ کرنے میں مصروف کر دیا اور باقیوں نے چپکے سے کھاتے والی کاپی چرا لی۔ اور جب بعد کاپی کھول کر دیکھا تو تفصیل کچھ اِس طرح سے درج تھی۔

پھینی۔۔ 75 روپے

موٹی مج۔۔ 96 روپے

ٹڈی۔۔ 24 روپے

وڈی ناساں آلی۔۔ 49 روپے

پھپھے کٹنی۔۔ 55 روپے

وڈے جبڑے آلی۔۔ 39 روپے

لم ڈھینگل۔۔ 81 روپے

میری لاڈو رانی۔۔ 790 روپے

اور یوں تجسس کے مارے اُن عورتوں نے آخر اِس سسپنس کا پردہ چاک کر دیا۔ بالکل اِسی طرح ہم لوگ بھی اپنی زندگی میں صرف ظاہری شکل و صورت کے ہی گرویدہ ہوتے ہیں۔ سیرت کے متعلق شاید جاننا ہی نہیں چاہ رہے ہوتے۔ جو نظر آ رہا ہوتا ہے بس اُسی کو base بنا کر ہم لوگ اپنی سوچوں کے مینار کھڑے کر لیتے ہیں۔

ہمارے روزمرہ کے معاملات میں بھی ہم منہ پر تو دعا سلام اچھی کر لیتے ہیں، لین دین بھی کرتے ہیں مگر ہم نے اپنی کاپی پر ظاہری حالت کے متعلق ہی لکھا ہوتا ہے۔ ہم کسی کا صاف اندر نہیں دیکھتے بلکہ ظاہری صورت کو لیکر ہی اپنے کانسیپٹ بناتے ہیں اور اُسی لحاظ سے ہم کسی شخص سے تعلق استوار کرتے ہیں۔ ہم ظاہری خوبصورتی دیکھ کر دوست بنتے ہیں، رشتے بناتے ہیں۔ جبکہ کسی کا دل نہیں دیکھتے، سیرت اور اچھے اخلاق کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بس ظاہری خوبصورتی پہ مر جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کا باطن چاہے کتنا ہی غلیظ کیوں نہ ہو، اِس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

ہم بھی سبزی والے ہی ہیں، ہم نے بھی روزانہ کے معمولات کو لیکر اپنی کاپی پر ایسے ہی ناموں سے کھاتے کھولے ہوئے ہیں۔ ہماری نظروں میں کوئی برا ہے تو کوئی بہت برا۔ کوئی کالا ہے تو کوئی توت سیاہ ہے۔ کوئی لنگڑا ہے تو کسی کی ناک بڑی ہے۔ کسی کی زبان ہکلاتی ہے تو کوئی آنکھ سے کانا ہے۔

اور اِسی ظاہری شکل و صورت کو بنیاد بنا کر ہم معاشرے کو سدھارنے نکلے ہیں۔ ہم خود کو مسلمان کہلواتے ہیں۔ جبکہ ہمارا اندر بہت کالا اور دل توے جیسا سیاہ ہو چکا ہے، لیکن ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں تو بس باہر والی خوبصورتی چاہیے، اندر چاہے کوئی ناگ پالتا پھرے، ہمیں کیا لگے؟

Check Also

Ahal e Riwayat Aur Kar e Tajdeed

By Muhammad Irfan Nadeem