Easy Hero Easy
ایزی ہیرو ایزی
اس دنیا میں آنا ہمارا فیصلہ نہیں تھا، مگر ہم آ گئے۔ یہ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں محمدﷺ کا امتی بنا کر بھیجا۔ یہ یقیناً ہمارے لیے بڑی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ زندگی آسان نہیں ہے۔ اسے آسان بنانا پڑتا ہے۔ محنت سے، عقل و شعور سے اور اچھے اصول و ضوابط سے۔
مشکلات زندگی کا ایسا جزو ہیں کہ جن کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر انسان تکلیفوں کا سامنا کرتا ہے، مگر زندگی میں آنے والی ان تکلیفوں، رکاوٹوں اور اَڑچلوں کو ڈیل کیسے کرنا ہے یہ بہت کم لوگ جانتے ہوتے ہیں۔
زندگی میں کامیاب لوگوں کی شرح بہت کم ہے۔ کامیابی وہ منزل ہے، جس کی خواہش تو ہر انسان کرتا ہے، مگر پہنچتا کوئی کوئی ہے۔
میری مانیں تو ان کم گنتی والے لوگوں میں شامل ہو جائیں کیونکہ زندگی کو جس انداز سے یہ لوگ جیتے اور انجوائے کرتے ہیں کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ زندگی کو دیکھنے اور پرکھنے کا جو بہترین انداز ان کے پاس ہے، وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ یہ لوگ ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پیچھے نہیں ہٹتے۔ سامنا کرتے ہیں۔
آپ نے تھری ایڈیٹ فلم تو ضرور دیکھی ہوگی۔ جس میں عامر خان کو جب جب کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود کو کہتا ہے کہ "آل از ویل"، آل از ویل۔ "۔
بس یہی فرق ہوتا ہے ایک کامیاب اور عام انسان میں۔ عام انسان کو جب جب مشکل پیش آتی ہے وہ ڈر جاتا ہے، ہمت ہار بیٹھتا ہے، وہ سامنا نہیں کرتا، وہ شکایات کے انبار اکٹھے کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ بہانوں کی ٹوکریاں بھر لیتا ہے، مگر کامیاب انسان ہمیشہ خود کو تیار کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ "ایزی ہیرو ایزی"۔ وہ اپنے اندر کو سمجھاتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا اور اگر کچھ ہو بھی گیا تب بھی کچھ نہیں ہوگا۔
یاد رکھیں، کہ یہی اڑچلیں اور رکاوٹیں ہی ہمیں تراشتی ہیں، ہیرا بناتی ہیں۔ ہمیں مضبوط کرتی ہیں۔ برا وقت آتا ضرور ہے، مگر وہ مستقل نہیں ہوتا۔ بس صبر اور شکر کا دامن تھامے رکھنا ہوتا ہے اور اس یقین کے ساتھ مصیبتوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ وہ اگر کسی آزمائش میں ڈال رہا ہے تو یقیناً اس میں کوئی مصلحت ہوگی۔ یا شاید خدا کسی بڑے انعام یا بڑی پوزیشن کے لیے بھی تیار کی غرض سے ہمیں امتحان میں ڈالتا ہے تاکہ ہم کسی قابل بن سکیں۔
بس کیسی ہی پریشانی کیوں نا ہو۔ خود سے ہمیشہ یہی کہیں کہ "ایزی ہیرو ایزی"۔ کچھ نہیں ہوا۔ اگر کچھ ہوا بھی تو سنبھال لیں گے۔ ڈٹ جائیں گے اور تب تک ہمت نہیں ہاریں گے جب تک کہ جیت نہیں جائیں گے۔