1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Dunki

Dunki

ڈنکی

جب چھوٹا تھا تب بزرگ ایک کہانی سنایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا۔ اس کی حکومت میں سبھی خوشحال تھے۔ وہ ایک بہترین بادشاہ تھا۔ رعایا اس کی حکومت سے بہت خوش تھی۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ انہیں اطلاع ملی کہ چند دنوں بعد ایک ایسی آندھی آنے والی ہے جس کے بعد سب کی سوچ بدل جائے گی۔ اس آندھی کی ہوا جس جس کو لگتی گئی، اس کی سوچ یکسر بدلتی جائے گی۔

جس دن آندھی آنا تھی، اس دن ایک وزیر نے بادشاہ کو تہہ خانے میں چھپا دیا، تاکہ اس کے ہوا سے بچایا جا سکے۔ آندھی آئی اور گزر گئی۔ بادشاہ تہہ خانے سے جب باہر آیا، دیکھا تو کوئی اُسے سلام ہی نہیں کر رہا۔ کوئی اُسے پہچان ہی نہیں رہا۔ کوئی عزت نہیں دے رہا۔ وہ لوگوں کو بتانے لگا کہ میں بادشاہ ہوں، مگر کوئی اُس کی بات کو نہیں سن رہا تھا۔ کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا۔ کیونکہ آندھی نے ان سب کی سوچ پوری طرح سے بدل دی تھی۔

بادشاہ، سوچ بدل جانے کی وجہ سے اب بادشاہ نہیں رہا تھا۔ کیونکہ بادشاہ کو بادشاہ، رعایا بنایا کرتی ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ اس سے اچھا تھا کہ وہ بھی اس آندھی کی ہوا کھا لیتا، کم سے کم سب کی سوچ سے مطابقت تو رکھتا۔

***

فلمی دور میں اُتار چڑھاؤ، قسم اقسام میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ چیزیں حالات کے حساب سے ٹرینڈنگز اور ترجیحات میں بہت بدلاؤ لے آتی ہیں۔ کبھی رومانٹک فلمز کا عروج ہوتا ہے تو کبھی ایکشن فلمز کا طوطی بولنے لگتا ہے۔ آج کا دور ماس اور وائلنٹ فلمز کا ہے۔ عوام کو بس یہی کچھ پسند آ رہا ہے۔ وائلنس، وائلنس، اور صرف وائلنس۔ ابھی ایکشنز سے بھرپور فلمز ہی پیسہ بنا رہی ہیں اور پیسہ تب ہی بنتا ہے جب ٹکٹس بکتی ہیں یعنی عوام خود ایکشنز فلمز کو اپنا ووٹ دے رہی ہے۔ اب ایسے میں کلاسک فلم کون دیکھے گا؟

راجکمار ہیرانی کا اپنا ایک انداز اور ذائقہ ہے اور ان کے اس ٹیلنٹ اور کانٹینٹ کے معیاری پن پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ مگر پھر مسئلہ کہاں بنا ہے؟ راجکمار ہیرانی جیسے نامور ہدایتکار اور کنگ خان کے نام سے جانے والے شاہ رخ خان سے پھر غلطی کہاں ہوئی ہے؟ یہ وہی ہدایتکار ہے جس کی فلمیں کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہیں۔ یہ وہی شاہ رخ خان ہے جس کی پچھلی دو فلمیں اسی سال میں ہزار ہزار کروڑ سے اوپر کا بزنس کر چکی ہیں تو پھر اچانک ایسا کیا ہوا ہے کہ ڈنکی فلم ویسا کاروبار کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ سست روی سے چل رہی ہے؟

وجہ وہی ہے، بادشاہ کی کہانی والی۔ راجکمار ہیرانی تہہ خانے سے اب باہر آیا ہے جب ہر طرف ماس اور وائلنٹ سے بھر پور ایکشن فلمز کی آندھی چل چکی ہے۔ سب کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے۔ اب کسی کو کلاسک، ڈرامہ فلمز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ جس جس کو ہوا چھو کر گزر گئی ہے، وہ ایکشن ایکشن کی رٹ لگانے میں لگا ہے۔ اب ایسے میں اگر کوئی کلاسک فلم لیکر آئے گا تو اس کی کوئی نہیں سننے والا۔

ان سب چیزوں میں قصور کس کا ہے؟ شاید سیزن کا۔ جیسے چیزوں کے، گارمنٹس کے، پھلوں کے، کاروبار کے سیزن ہوتے ہیں، ویسے ہی ایکشن فلموں کے سیزن میں راجکمار ہیرانی کلاسک فلم بیچنے آ گیا ہے تو ظاہری سی بات ہے، مشکل کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔ چیزیں اپنے اپنے سیزن میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ چیزیں بیچنے سے پہلے سامنے والے کی ضروریات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ چیزیں بیچنے والا کتنا بڑا آدمی ہے بلکہ خریدنے والے اپنی پسند کو پہلے ترجیح دیتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ راجکمار ہیرانی اچھا لکھاری، بہترین ہدایتکار اور جاندار ایڈیٹر ہے۔ مگر وہ بھول گیا ہے کہ شاید وہ سیزن نہیں رہا۔ شاید بدلاؤ کی ہوا نے سب کی سوچوں کو بدل دیا ہے۔ جیسے گنجوں کے شہر میں کنگھیاں نہیں بیچا کرتے، بالکل ویسے ہی ایکشن فلمز کے دور میں کلاسک نہیں بیچا جا سکتا۔ خیر، یہ دھچکا سب سے زیادہ راجکمار ہیرانی کو ہی ہِٹ کرے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ وہ خود کی ویلیو اور نام کو برقرار رکھنے کے لیے کیا پلان بناتے ہیں۔ کیونکہ نام بنا لینا زیادہ مشکل نہیں ہوتا بلکہ بڑے نام کی لاج اور عزت کو مسلسل قائم رکھ پانا زیادہ اہم ہوتا ہے۔

Check Also

Aankh Ke Till Mein

By Shaheen Kamal