Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Dost Ho To Aisa

Dost Ho To Aisa

دوست ہو تو ایسا

یہ غالباً 2005 یا 2006 کی بات ہے۔ تب میرے پاس سائیکل ہوتا تھا جس پر بیٹھ کر روزانہ اسکول آنا جانا ہوتا۔ ایک مولوی کلاس فیلو تھا جو کہ اللہ معاف کرے بڑی شیطان صفت طبیعت کا مالک تھا۔ اُسے ہر وقت کوئی نہ کوئی شرارت سوجھتی رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ دوستوں کے سرکل میں بھی ہمیشہ شہ سرخیوں میں رہا کرتا۔ ایک دفعہ کی بات ہے کہ میں سائیکل چلا رہا تھا اور وہ میرے پیچھے بیٹھا تھا۔ ہم اسکول سے گھر جا رہے تھے۔ ویسے وہ دور بھی کیا خوبصورت دور تھا۔ بس پڑھائی کرنی اور کرکٹ کھیلنی، دو ہی کام ہوا کرتے تھے۔ شرارتی دوستوں کی بدولت تب خوب مزے لوٹتے تھے۔

خیر ہم سائیکل پر اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھے کہ اچانک سامنے سے گاما نائی آتا دکھائی دیا۔ وہ بھی اپنی سائیکل پر تھا اور ہماری طرف ہی آ رہا تھا۔ تو مولوی دوست نے جھٹ سے شیطانی مشورہ دیا کہ سائیکل ٹھوکو گامے میں، سائیکل ٹھوکو گامے میں اور میں نے فل سپیڈ سے پیڈل مار کے سائیکل کا رُخ گامے نائی کی طرف کر دیا تھا، لیکن گاما نائی زیادہ تیز نکلا۔ اُس نے عین موقع پر اپنے سائیکل کو کرنٹ کی تیزی سے ایک طرف موڑ دیا۔

میں جو پوری رفتار سے تھا، اِس سے پہلے کہ سنبھلتا، سائیکل سیدھا ایک دوسرے بھائی کے سائیکل سے جا ٹکرایا جو کہ اپنی عورت کے ساتھ تھا اور ہم چاروں دھڑام سے نیچے جا گرے۔ گرنے کی دیر تھی کہ اُس عورت نے اپنا منہ پکڑ کر واویلا مچانا شروع کر دیا۔ مجھے لگا کہ شاید اُس کا منہ اچانک بریک لگانے کی وجہ سے اپنے شوہر کی کمر سے ٹکرانے کی وجہ سے درد ہو رہا ہوگا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اُس عورت کے منہ میں شدید درد تھا اور اُس کا شوہر اُس کو اِسی لیے شہر ہسپتال لیجا رہا تھا تاکہ اُس کا علاج کروا سکے۔

دل سے آواز آئی کہ آج تو گئے۔

یہ سب اتنا جلدی میں ہوا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ایک نظر گامے نائی پر پڑھی جو کہ ہنستا ہوا اپنی راہ پہ ہو لیا تھا اور میں نے بھی ڈر کی وجہ سے اپنے گھٹنے کو پکڑ کر بیٹھ گیا کہ ہائے میرا گھٹنا گیا، ہائے میرا گھٹنا گیا۔ وہاں کافی لوگ جمع ہو گئے۔ عورت نے کہا کہ مجھے چھوڑو سب اُس لڑکے کو دیکھو۔ تو سب میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ یہ قریب ہی حنیف ہڈی جوڑ کا گھر ہے چلو تمہیں وہاں لیے چلتے ہیں تو تب مولوی دوست بولا، جو کہ کب سے خاموش کھڑا تھا کہ آپ سب رہنے دیں میں اسے لے جاتا ہوں۔ اور جن سے ہماری سائیکل لگی تھی اُس سے بھی معذرت کی اور مجھے سائیکل کے پیچھے بٹھا کر وہاں سے دور لے آیا۔

جب ہم کافی دور آ گئے تو سارا واقعہ یاد کرکے زور زور سے ہنسنے لگے، اور شکر کرنے لگے کہ گھٹنے درد کے بہانے نے آج جان بچا لی ورنہ نجانے کیا ہو جاتا؟

میری خواہش ہے کہ ہر کسی کی زندگی میں کوئی ایسا شرارتی مولوی ضرور ہونا چاہیے جو کہ خوشیوں، لطیفوں اور شرارتوں سے زندگی میں رنگ بھر سکے۔

Check Also

Agar Kuch Karna Hai To Shor Walon Se Door Rahen

By Azhar Hussain Bhatti