Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Doosron Ki Aankh Sub Raakh Kar Degi

Doosron Ki Aankh Sub Raakh Kar Degi

دوسروں کی آنکھ سب راکھ کر دے گی

یہ سچ ہے اور کاٹ کھانے والا سچ ہے کہ یہ دنیا تباہی کی طرف گامزن ہے اور وجہ صرف انسانی آنکھ ہے۔ جب آپ انسانی رویوں کو پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ کوئی انسان بھی اپنے لیے نہیں جی رہا یا اپنی خواہشات کے مطابق زندگی بسر نہیں کر رہا بلکہ ہم سب دوسرے لوگوں کی آنکھ کا بوجھ اٹھائے سانسیں لے رہے ہیں۔

ہم جب بھی کوئی سوٹ خریدنے لگتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ یار یہ میرا پسندیدہ رنگ ہے، یہ پہن کر مجھے اچھا لگے گا، بلکہ اُس سوٹ کو دوسروں کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر خریدتے ہیں۔ اسی طرح کوئی جوتا لینا ہو، گھر کے پردے تبدیل کرنے ہوں، کوئی نوکری کرنی ہو، یا کچھ بھی کرنا ہو ہم ہمیشہ اپنا ہر کام دوسروں کی آنکھ کے مطابق کرتے ہیں۔

ہم خود کی آنکھ سے اندھے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنی پسند کو خود ہی ویلیو نہیں دے پا رہے۔ کیا اوڑھنا اور کیا بچھونا ہے سب دوسروں کے متلعق سوچ سوچ کر، کر رہے ہوتے ہیں۔

دوسروں کی نظریں ہماری خواہشات کو نگل رہی ہیں۔ ہمارے اندر کے جذبات، بچپنے اور شوخیوں کو دوسروں کی آنکھ کھا رہی ہے اور ہم بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے اپنے لیے جینا چھوڑ دیا ہے۔ خود کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے ہم خود ہی ہیں۔

گاڑی لینی ہے تو بڑی لینی ہے ورنہ رشتہ دار کیا سوچیں گے کہ چھوٹی گاڑی لے لی ہے۔ تنخواہ تھوڑی ہے تو کیا ہوا موبائل تو آئی فون ہی رکھنا ہے چاہے بھاری قسطوں پر ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ کیونکہ لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔

مصنوعی اور کھوکھلی زندگی کی طرف ہم زیادہ راغب ہو رہے ہیں جس میں سراسر نقصان ہم سب کا ہے جس کا خمیازہ بہرحال ہمیں بھگتنا ہے۔ یہ بیماری کینسر کی طرح ہمارے اندر پھیل چکی ہے جس کا علاج فی الوقت مجھے تو کچھ نظر نہیں آ رہا۔

سب کریڈٹ کی دنیا کے باسی بن چکے ہیں۔ آرگینک کچھ بھی نہیں رہا۔ اندر کے حالات جیسے مرضی ہوں مگر باہر کی دنیا کو یہی شو کروانا ہے کہ ہم خوشحال ہیں اور نہ صرف خوشحال ہیں بلکہ اپنی زندگی کو بہت خوش و خرم طریقے سے جی بھی رہے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ دکھاوا ہمیں بہت مہنگا پڑ رہا ہے جس کے اثرات دیر پا نقش چھوڑیں گے۔

گاڑی کریڈٹ پہ، آئی فون کریڈٹ پہ، گھر کریڈٹ پہ مہنگی گھڑی کریڈٹ پہ برانڈڈ ڈریسز کریڈٹ پہ، سب کچھ کریڈٹ پہ چل رہا ہے اور وجہ صرف ایک ہے دوسروں کی آنکھ کہ فلاں دیکھے گا تو کیا سوچے گا؟ کھانے باہر مہنگے مہنگے ریسٹورینٹس پر کھانے ہیں کیونکہ دنیا والوں کو تو یہی دکھانا ہے ناں کہ بھئی ہم نے بہت ترقی کر لی ہے۔ ہم کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں بلکہ وقت اور حالات کے مطابق خود کو اپڈیٹ کیا ہے۔

یہ دوسروں کی آنکھ ہمارے اندر اِس قدر گھس چکی ہوئی ہے کہ ہمارا وجود تک خالص نہیں رہا ہے۔ رشتے خالص نہیں رہے۔ ہر چیز میں دکھاوا اپنی ٹانگیں پھیلا کے بیٹھ گیا ہوا ہے۔ اب کسی فنکشن، شادی یا ایونٹ پہ ملاقاتوں میں حال احوال نہیں بلکہ اسٹیٹس پوچھے اور بتائے جاتے ہیں اور یہی ہمارے زوال کی سب سے بڑی نشانی ہے۔

خدارا خود کو خود کی نظروں سے دیکھنا شروع کریں۔ خود کی خوشیوں کو دوسروں کی آنکھ کی وجہ سے نہ کچلیں۔ خود کے لیے جئیں اور آرگینک زندگی کی طرف واپس لوٹیں ورنہ دوسروں کی یہ آنکھ بری نظر کی طرح سب کچھ راکھ کر ڈالے گی۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad