Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Cheezon Ko Casual Na Liya Karen

Cheezon Ko Casual Na Liya Karen

چیزوں کو casual نہ لیا کریں

15 اپریل 1912 ایک ایسا بھیانک دن تھا کہ جب ایک دیو قامت اور پہاڑ جتنا جہاز اٹلانٹک اوشن کے ٹھنڈے پانیوں میں برف کے ایک بڑے تودے سے ٹکرا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا تھا۔

اِس جہاز کا پورا نام RMS Titanic تھا جس کی لمبائی 882 فٹ جبکہ اونچائی یعنی قد 175 فٹ تھا۔ یہ جب برطانیہ سے نیو یارک کی طرف نکلا تھا، تب سمندر گہرا خاموش تھا، کسی طوفان کی آمد کا کوئی نشان نہیں تھا۔ ہر طرف پرسکون ماحول تھا۔ لیکن اِسے ٹائی ٹینک کی بدقسمتی کہیے کہ 14 اپریل کی رات اٹلانٹک اوشن کا درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے چلا گیا تھا۔ اوشن کے اتنا ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے اکثر اس میں آئس برگ بن جایا کرتے ہیں۔ لیکن اِن سوچوں سے کوسوں دور یہ جہاز اپنے سفر کی طرف رواں دواں تھا۔

اِنہیں ایک جہاز کی طرف سے پیغام بھی ملتا رہا تھا کہ آئس برگ کا دھیان رکھیے گا لیکن جہاز کے عملے نے اِس بات کو یکسر نظر انداز کیا۔ جہاز 25 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہا تھا جب اِسے علم ہوا کہ سامنے ایک بہت بڑا آئس برگ ہے۔ تب جہاز کے کیپٹن نے فوراً جہاز کو موڑنے کا حکم جاری کیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ جہاز اور آئس برگ کا درمیانی فاصلہ بہت کم رہ گیا تھا اور اسی رفتار سے جہاز اُس خونی آئس برگ سے ٹکرایا تھا جس سے جہاز کے اندر 300 فٹ گہرا شگاف پڑ گیا تھا۔

شگاف پڑنے کی دیر تھی کہ برفانی پانی جہاز کے اندر بھرنا شروع ہوگیا۔ مسافر سو رہے تھے لیکن اُنہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ اب ابدی نیند سونے والے ہیں۔ جہاز نے فوراً مدد کے پیغامات بھیجنے شروع کر دیے تھے لیکن کوئی پرسان حال نہیں تھا اور محض دو گھنٹے اور چالیس منٹ میں پورا جہاز اٹلانٹک اوشن کے گہرے برفیلے پانیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا تھا۔ جس سے پندرہ سو لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

اِس جہاز کے ڈوبنے کی وجہ صرف چیزوں کو casual لینا بنی تھی۔

پہلی، جہاز کے مالک کے مطابق یہ جہاز کبھی ڈوب ہی نہیں سکتا تھا، دوسرا اُس نے جہاز کی خوبصورتی کو مدنظر رکھتے ہوئے 32 کشتیوں کو کم کرکے 20 تک لے آیا تھا۔ یعنی جب جہاز نے ڈوبنا ہی نہیں تو کشتیوں کی پھر کیا ضرورت ہے۔ تیسری عملے کی کسی بھی ایمرجنسی سے نبٹنے کی صورت میں کوئی خاطر خواہ تربیت نہیں کی گئی تھی۔ ہر چیز کو بہت ہی casual لیا گیا تھا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو مزید بہت سے لوگوں کو بچایا جا سکتا تھا لیکن رزلٹ وہی نکلا جو ہوا کرتا ہے کہ کبھی نہ ڈوبنے والا جہاز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔

چیزوں کو سنجیدگی سے لیا کریں۔ ایک عام سی لاپرواہی آپ کو کسی ایسے نقصان سے دوچار کر سکتی ہے کہ جس کا ازالہ ہی ممکن نا ہو۔ اِسی طرح ہمارا ایک دوست ہے جو کہ چیزوں کو لیکر بہت ہی casual approach رکھتا ہے۔ وہ جیسے کسی چیز کی آخری حد دیکھنے کا قائل ہے۔ کوئی بھی کام ہو وہ نارملی انداز سے کہہ دیتا ہے کہ کچھ نہیں ہوتا۔ "ویکھی جاوے گی" اور پھر جب ویکھنی پڑ جائے تو دن میں بھی تارے نظر آنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن وہ ان چیزوں سے سبق نہیں سیکھتا بلکہ وہ اپنی اُسی روٹین کو ہی سنبھالے ہوئے ہے۔

ایک دفعہ مارچ 2019 میں ہمارا لاہور سے اسلام آباد جانے کا پلان بنا، ہم بخیر و عافیت سے اسلام آباد پہنچے اور خوب انجوائے بھی کیا۔ تین چار دن گزارنے کے بعد جب واپسی کے لیے نکلنے لگے تو ایک دوست نے مشورہ دیا کہ یار گاڑی کا پانی چیک کر لو تو آگے سے اُسی ڈھیلے دوست نے کندھے اُچکاتے ہوئے جواب دیا کہ میری گاڑی ہے مجھے بہتر پتہ ہے کہ پانی کی ضرورت کب پڑے گی۔

ہم براستہ جی ٹی روڑ واپسی کے لیے نکلے تھے کافی آگے آنے کے بعد گاڑی ہیٹ اپ ہوگئی اور اِتنی پرابلم بنی کہ گاڑی کا انجن ہی سیز ہوگیا۔ گاڑی چلنا بند ہوگئی۔ پھر ادھر ادھر کالز کھڑکائیں اور ایک بڑے مزدے کا بندوبست کیا، پھر ریکوری والے کو کال کی اور گاڑی کو مشکل سے مزدے میں ڈالا اور ہم چاروں دوست بھی مزدے میں بیٹھ گئے۔ وہ رات بڑی مشکل سے گزری تھی ہماری۔ مزدے کے اندر بیٹھ کر لگتا تھا کہ پچھلا کنٹینر جیسے نیچے ہی جا گرے گا۔ سارے رستے کھڈے لگنے کی وجہ سے اوپر نیچے اچھل کود چلتی رہی تھی۔ نیند زوروں پر تھی مگر مزدا کہتا تھا کہ سو کر دکھاؤ تو پھر مانوں۔

زندگی کے بدترین سفروں میں سے ایک سفر یہ مزدے والا بھی تھا۔ جس کی وجہ بہت ہی چھوٹی تھی یعنی گاڑی میں وقت پر پانی نہیں ڈالا گیا تھا جس کا خمیازہ بہت بری طرح سے بھگتنا پڑا تھا ہمیں۔ گاڑی واپس لانے کے چارجز الگ سے پڑے تھے، جبکہ انجن کے پیسے الگ۔ صرف ایک چھوٹی سی لاپرواہی نے چار لوگوں کو بری طرح سے ڈسٹرب کیا اور پیسوں کے ٹیکے الگ سے لگے تھے۔ زندگی میں چیزوں کو سیریس لیا کریں کیونکہ casual لینا آپ کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔

یاد رکھیں کہ چیزوں کو casual نہیں لینا ورنہ زندگی آپ کو casual لینا شروع کر دیتی ہے جس کا خمیازہ موت کی صورت بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

Check Also

Zindagi Asan Banaye

By Amir Khakwani