Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Beti Maike Se Na Milay, Warna Acha Nahi Hoga

Beti Maike Se Na Milay, Warna Acha Nahi Hoga

بیٹی مائیکے سے نہ ملے، ورنہ اچھا نہیں ہو گا

شبنم کی عمر بمشکل اٹھارہ سال ہوگی۔ والد ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے تو اُسی پینشن سے گھر چلتا تھا۔ والدہ نے ابھی سے رشتے دیکھنے شروع کر دیے تھے جبکہ شبنم ابھی پڑھنا چاہتی تھی۔

ایک صبح والدہ نے شبنم کو بتایا کہ آج شام اُسے کچھ لوگ دیکھنے آ رہے ہیں۔ شبنم نے کہا کہ امی میں نے آپ کو صاف منع کیا ہوا ہے کہ مجھے پڑھ لینے دیں۔ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی تو کیوں آپ میرے ساتھ ایسے زبردستی کر رہی ہیں؟

لڑکیاں زیادہ پڑھیں یا کم؟ اُنہوں نے گھر ہی سنبھالنا ہوتا ہے۔ اسی لیے جو کہا ہے وہ کرو، ماں کو مت سکھاؤ۔ ماں نے دو ٹوک سنا دیں۔

شام کو مہمان وقت پر آ گئے تھے۔ لڑکا، جسے شاید لڑکا کہنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ وہ کچھ بڑی عمر کا تھا۔ کسی بحری جہاز میں کام کرتا تھا اور تین چار مہینوں بعد ہی گھر واپسی ہوا کرتی تھی۔ تنخواہ اچھی تھی اور اِسی تنخواہ کی چکا چوند نے شبنم کی ماں کو راضی کر لیا تھا جبکہ شبنم کو یہ رشتہ بالکل پسند نہ آیا تھا۔

مہمان اپنی طرف سے ہاں کرکے واپس چلے گئے۔ اب اِن کے جانے کی باری تھی۔ شبنم نے صاف لفظوں میں اِسے رشتے سے انکار کر دیا تھا مگر والدہ نے کہا کہ کیا ہوا جو عمر تھوڑی زیادہ ہے، کماتا بھی تو اچھا ہے۔ تُو عیش کرے گی وہاں پر۔ شبنم پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔

والد نے سمجھایا بھی کہ دیکھ شبنم کی ماں، بیٹی کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاتی مگر وہ کہاں سننے والی تھی سو وہ باز نہیں آئی۔ یہ لوگ بھی پھر اُن کے گھر گئے۔ بعد میں جب لڑکے کے متعلق پتہ کروایا تو معلوم پڑا کہ لڑکا پہلے بھی ایک شادی کر چکا ہے لیکن کسی مسئلے کے سبب طلاق ہو چکی ہے۔

والد بھی اِس رشتے سے پوری طرح متنفر ہوگیا مگر شبنم کی ماں ابھی تک ہر طرح سے راضی تھی۔ اللہ جانے اُسے اپنی بیٹی سے کوئی خدا واسطے کا بیر تھا یا اچھی تنخواہ نے آنکھوں پر کوئی پٹی باندھ دی تھی، جو وہ ابھی تک اپنی زبان پر قائم چلی آرہی تھی۔ ماں کی ہٹ دھرمی اور دھمکیوں کی وجہ سے شبنم کا رشتہ حامد سے ہوگیا اور یوں وہ دلہن بن کر حامد کے گھر آگئی۔

شبنم تیسرے ہفتے ہی امید سے ہوگئی اور اُس کا میاں واپس نوکری ہر چلا گیا۔ حامد کو جب بھی اپنی بیوی سے بات کرنا ہوتی تو وہ اپنے بھائیوں کو کال کرکے اپنا پیغام شبنم تک پہنچا دیتا اور کچھ خرچہ بھی بھجوا دیا کرتا۔ ڈیڑھ مہینہ گزرا تو شبنم اپنے مائیکے چلی گئی۔

خیر حامد خرچہ ہر مہینے بھجوا دیا کرتا۔ دن گزرتے گئے اور نو مہینے پورے ہو جانے پر ڈاکٹر نے اُسے 21 تاریخ کا وقت دیا جو کہ اتوار کا دن بن رہا تھا۔ اِسی اثناء میں حامد بھی چھٹیوں پر گھر آ گیا۔ اُس کی پوری فیملی شبنم کے گھر آ گئی اور اُسے کلینک لے گئے جہاں سے اُس کا چیک اپ ہوتا تھا۔ وہاں گئے تو پتہ چلا کہ آج اتوار ہے تو ڈاکٹر چھٹی پر ہے اِسی لیے آج آپریٹ نہیں ہو سکتا۔

یہ بات سن کر حامد کو شدید غصہ آیا اور اُس نے وہاں کے عملے کے ساتھ کافی بدتمیزی بھی کی پھر وہ کسی اور ہسپتال چلے گئے جہاں آپریشن کے بعد شبنم نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ حامد نے وہاں عملے کو مٹھائی بھی کھلائی اور سارے بِل وغیرہ ادا کرکے شبنم کے گھر لوٹ آئے۔ وہاں حامد نے شبنم سے اکیلے میں بات کی کہ وہ ابھی حامد کے ساتھ اپنے گھر لوٹ چلے جس پر وہ نہیں مانی اور حامد لڑائی کرکے اپنی فیملی کو لیکر چلا گیا اور پھر واپس نہ آیا اور نہ ہی کبھی فون کیا۔

پھر سوا مہینہ گزر جانے کے بعد حامد آیا اور اُس نے یہ شرط رکھی کہ آئندہ شبنم اپنے مائیکے والوں سے کوئی تعلق بحال نہیں رکھے گی۔ اگر اُسے حامد کے ساتھ رہنا ہے تو مائیکے کو چھوڑنا ہوگا اور یوں شبنم نے صاف منع کرکے مائیکے میں رہنے کو ہی ترجیح دی۔ حامد غصے میں واپس چلا گیا۔ شبنم نے خلع دائر کر دیا اور یہ بھی کہ وہ کسی سائیکو مریض کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزار سکتی اور اپنی اِنہیں حرکتوں کی وجہ سے حامد اپنی پہلی بیوی سے بھی علیحدگی اختیار کر چکا ہے۔

ماں اب بھی شبنم کو کہتی کہ نبھاہ کر لو مگر شبنم کو اب اُس کے والد کی سپورٹ حاصل تھی مگر ان سب میں نقصان کس کا ہوا؟

حامد کا؟

شبنم کا؟

یا پھر جنم لینے والی بیٹی کا؟

یہ گھر کیوں نہ بس سکا؟ کس چیز کا فقدان تھا؟

تربیت؟

جہالت؟

فطرت؟

بہرحال جو بھی ہوا، نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اِسی لیے کہتے ہیں کہ رشتہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر کریں اور اپنی بیٹیوں کے اچھے نصیبوں کی دعا کیا کریں۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad