Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Beti Ka Asal Ghar Kon Sa Hota Hai?

Beti Ka Asal Ghar Kon Sa Hota Hai?

بیٹی کا اصل گھر کون سا ہوتا ہے؟

ہد ہد ایک ایسا پرندہ ہے کہ جس کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ زیرِ زمین پانی دیکھ سکتا ہے۔ لیکن جب اُس سے یہ سوال پوچھا گیا کہ تم اِس قدر سیانے اور تیز نظر رکھنے والے پرندے ہو کہ زمین کہ تہہ میں پانی تک دیکھ لیتے ہو مگر جب کوئی تمہیں کسی دھاگے یا جال کے استعمال سے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے تو تم اُن کے ہاتھ کیسے لگ جاتے ہو۔ تمہیں وہ جال نظر کیوں نہیں آتا تو ہد ہد جواب دیتا ہے کہ میاں یہ نصیبوں کے جال کہاں نظر آتے ہیں۔ اِن مقدر کے شکنجوں سے کون بچ پایا ہے بھلا؟

بالکل اِسی طرح مجھے ہماری بہن بیٹیوں کے نصیبوں سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ کہ ہد ہد کی طرح وہ بھی جب تک اپنے ماں باپ کے گھر ہوتی ہیں بڑی سگھڑ سیانی اور تیز چالاک ہوتی ہیں۔ لیکن سسرال جاتے ساتھ ہی نصیبوں کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔ بیوقوف، نکمی اور منحوس کہلانے لگتی ہیں۔ اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔

ویسے بیٹیوں کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے جو

"کوکلا چھپاکی جمعرات آئی ہے"

سے شروع ہوتی ہے اور

"ساڈا چِڑیاں دا چمبہ وے بابل اَساں اُڑ جانا"

پہ ختم ہو جاتی ہے۔

گُڈّی گُڈّے کا بیاہ رَچاتے رَچاتے جانے کب اُن کا اپنا بیاہ آ جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔

وہ اپنا گھر بار، ماں باپ سَکھی سہیلیاں، کھلونے، گلیاں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پیا گھر سدھار جاتی ہیں۔ جہاں اُنہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اگلے لوگ کیسے ہونگے، کیسے پیش آئیں گے۔ کیسی فطرت کے مالک ہونگے؟

اللہ ہی صبر دینے والا ہوتا ہے ورنہ تو بیٹیوں کو رُخصت کرتے وقت ماں باپ کے کلیجے پھٹ جایا کرتے۔

میں خود ایک بیٹی کا باپ ہوں، ایک دفعہ بیگم نے ایسے ہی لال دوپٹہ میری بیٹی کے سر پہ رکھ دیا تو میں نے فوراً دوپٹہ پیچھے کر دیا۔ میری تو جیسے جان نکل گئی۔ بیگم کہنے لگی کہ واہ۔۔ دوپٹہ تو ایسے پیچھے کیا ہے جیسے بیٹی کو تو کبھی بیاہنا ہی نہ ہو؟

میں نے کہا کہ بس چپ کر جاؤ۔ جب وقت آئے گا تب دیکھیں گے۔

یہ سچ ہے کہ چھڑی آنکھوں کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔ ساس اور سسر کبھی ماں باپ نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگلے کی بیٹی کو عزت تو دے ہی سکتے ہیں ناں؟

میں اِس جملے سے بھی سخت اختلاف کرتا ہوں کہ "دھیاں تو سانجھی ہوتی ہیں"۔ یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جو ہمارے معاشرے میں پھیلا دیا گیا ہے۔ کوئی کسی کی سانجھی نہیں ہوتی۔

بیٹی جس کی ہوتی ہے، صرف اُسی کی ہی ہوتی ہے۔ باقی سب بکواس ہے۔

مجھے دکھ ہوتا ہے کہ بیٹی اپنے سسرال گھر بھی ساس، نند وغیرہ کو چیزوں کا حساب دیتی پھرتی ہے کہ کب کیا پکانا ہے، کدھر جانا ہے، کدھر نہیں جانا، سوٹ اُن کی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتی۔ اُن کی اجازت کے بغیر اپنے ماں باپ سے ملنے نہیں جا سکتی اور اپنے گھر بھی چلی جائے تو غیروں جیسی لگتی ہے۔

بیٹی کیا ہے؟ اُس کا گھر کون سا ہے؟ جب وہ ظلم سہتی ہے تو تب اُس کا اپنا کوئی کیوں بچانے نہیں آتا۔ کوئی کیوں تسلی دینے والا نہیں ہوتا؟ کیوں وہ ظلم، طنز اور زیادتیاں سسرال گھر برداشت کرتی ہے لیکن اپنے مائیکے نہیں بتاتی یا وہاں نہیں جاتی۔ کیوں وہ تن تنہا ہوتی ہے؟

اب اِس کے حل کے بارے میں بات کریں تو میرے خیال میں سب سے پہلے تو بطور ایک ماں اُسے اپنی بیٹی کی پرورش ایسے کرنی چاہیے کہ بیٹی زندگی میں مضبوط ہوش و حواس کی مالکن بنے۔ وہ خود کو کمزور نہ سمجھے۔ اپنی ذات کو سنبھالنے والی بنے۔ پھر اپنے بیٹوں کو اس طرح جوان کرے کہ وہ اپنی بہن کی عزت کے رکھوالے بنیں۔ وہ اپنی شادی کے بعد بھی بہن کے لیے مضبوط سہارا بن کر دکھائیں۔ کیونکہ بیٹی کا مضبوط مائیکا ہی اُسے سسرال میں عزت دلواتا ہے۔ جن کا مائیکا نہیں ہوتا، اُن لڑکیوں کے حالات تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں کہ اُن کا سسرال کیسے کیسے ظلم کرتا ہے اُن پر۔

اب آخر میں یہی کہوں گا کہ، ساری بات پرورش، تربیت اور اسلام پہ عمل کرنے کی ہے۔ وگرنہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔

Check Also

Falasteeni Be Rozgari Bharat Ke Liye Kitni Faida Mand?

By Wusat Ullah Khan