Bachon Ki Shadi Unki Marzi Se Karen
بچوں کی شادی اُن کی مرضی سے کریں
آکٹوپس ایک سمندری جبکہ بطور ماں ایک بہترین کردار کا حامل جانور ہے۔ یہ جب سنگم کرتے ہیں تو ملاپ کے تقریباً چالیس دن بعد مادہ آکٹوپس چھوٹے فرٹیلائزڈ انڈوں کو جو کہ مجموعی طور پر 10000 سے 70000 کی تعداد تک ہوتے ہیں کو چٹانوں کے ساتھ کسی شگاف میں چھپا دیتی ہے۔ جہاں وہ بچے نکلنے یعنی تقریباً 160 دن تک اُن کا خیال رکھتی ہے۔ وہ انڈوں کی حفاظت کو لیکر اِس حد تک کئیرنگ ہوتی ہے کہ شکار کرنا بھی چھوڑ دیتی ہے۔ اُس کا سارا فوکس صرف اپنی اولاد پر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اُسے شدید بھوک لگتی ہے تو وہ اپنا سر کسی سخت چیز پر مارنے لگ جاتی ہے تاکہ وہ بھوک کی شدت سے کہیں اپنے بچوں کو ہی نہ کھا جائے۔
اور یوں وہ اپنی اولاد کی خاطر شدید بھوک کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی قربانی دے دیتی ہے۔ مائیں یا والدین اپنے بچوں کو لیکر ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ چاہے انسان ہو یا جانور سب میں اپنی اولاد سے بےپناہ پیار کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اولاد سے محبت کرنا انسان اور جانور دونوں کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کے لیے ہر طرح کے خطرات سے ٹکرا جاتے ہیں۔ لیکن انسان اِس معاملے میں بعض اوقات اپنی اولاد کا قاتل بن جاتا ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی اولاد کا گلا گھوٹنے سے بھی باز نہیں آتا۔ وہ بچوں سے محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر بات جب اُس کی ضد، اَنا یا نام نہاد غیرت پر آتی ہے تو وہ اَنا کی قربانی دینے کی بجائے اپنی اولاد کی قربانی دینا زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔
ہر انسان اپنی زندگی کا مالک خود ہوتا ہے۔ اُسے پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اہم فیصلے خود کر سکے۔ جیسے چاہے زندگی گزار سکتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں کے والدین بچوں کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ یعنی اُن کی شادی کا فیصلہ بچوں کی بجائے خود کرنے لگتے ہیں جو کہ میرے خیال میں اپنی اولاد کو مار دینے کے مترادف ہے۔ یہ والدین انسانی روپ میں اپنے بچوں سے پوچھنا تک گوارا نہیں کرتے کہ پُتر تیری پسند کیا ہے؟
خاص طور پر بیٹیوں پہ کوئی لڑکا پسند کرنا اِس قدر حرام کر رکھا ہوتا ہے کہ فقط اِسی بات پر ہی قتل کر دیتے ہیں۔ ہم بطور والدین آکٹوپس جیسے زہریلے جانور سے بھی بدتر ہیں کہ جو اپنی ہی اولاد کی زندگی اُن سے چھین لیتے ہیں۔ بیٹی کی شادی اُس لڑکے سے کرنے پہ راضی نہیں ہوتے کہ جو اُسے جانتا ہے، پہچانتا ہے۔ اُسے خوش رکھنے کا عزم لیے پھرتا ہے۔ لیکن ہم شادی اُس سے کرتے ہیں کہ جو شاید ہماری بیٹی کے لیے بھی ٹھیک نہیں ہوتا مگر ایسا کرنے سے ہماری غیرت کو سکون مل جاتا ہے۔ بھئی جب شادی کرنی ہی ہے، بیٹی کسی کے ساتھ بیاہنی ہی ہے تو کیوں ناں اُسے اُس کی پسند کے ساتھ ٹور دیا جائے۔
ہم کیوں اپنے بچوں سے ہنسی چھین لیتے ہیں۔ اُن سے اچھا ہمسفر لیکر اپنی مرضی کا بُرا تھما دیتے ہیں۔ جو کہ نہ ہماری اولاد کے لیے بہتر ہوتا ہے اور نہ ہی ہمارے اپنے لیے۔ ہم اِس معاملے میں جانے اِتنے سنگدل کیوں ہو جاتے ہیں؟ جبکہ ہم سے اچھا تو آکٹوپس ہے کہ جو اپنی اولاد سے پیار کی خاطر اپنی جان دے دیتا ہے مگر ہم اپنی اولاد کا مستقبل تک نوچ ڈالتے ہیں۔ بیٹی پہ اپنی مرضی مسلط کرکے پوچھتے ہیں کہ بیٹی تم اپنے گھر خوش تو ہو ناں؟ بعض بیٹیوں کو تو اچانک خبر ملتی ہے کہ پرسوں تمہارا نکاح ہے۔ یعنی اِس حد تک سرپرائز دیے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اولاد سے پیار کرتے ہیں تو پیار کا عملی مظاہرہ کرنا بھی سیکھیں۔ اُنہیں اُن کی زندگی کی خوشیاں خود چننے دیں۔ زندگی کے اہم فیصلوں کی ڈور اولاد کے ہاتھوں میں تھما دیں اور خود اُن کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور بلاشبہ یہی چیز بہترین والدین کی پختہ علامت ہوتی ہے۔