Allah Pe Yaqeen
الله پہ یقین
ہمارے معاشرے کا یہ بڑا المیہ، بڑے دکھ اور بڑے فکر کی بات ہے کہ زندگی میں ہمارا واسطہ جب بھی کبھی کسی بڑی مشکل یا پریشانی سے پڑتا ہے تو ہم ہمیشہ اس وحدہ لاشریک ذات کو، اس رب کو، اس خدا کو اپنا آخری سہارا سمجھتے ہیں آخری آسرا مانتے ہیں۔ کبھی بھی پہلی فرصت میں اس کے پاس نہیں جاتے۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ جس طرح اللہ کی قربت کے درجے ہوتے ہیں کوئی قریب ہوتا ہے تو کوئی اُس سے بھی زیادہ قریب ہوتا ہے بالکل ویسے ہی مجھ جیسے گنہگار بندے کے لیے بھی کچھ مخصوص لمحے ہوتے ہیں جب وہ اُس ذات کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
اللہ فرماتا ہے کہ اگر جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو وہ بھی مجھ سے مانگو۔ اگر آپ اِس یقین کے ساتھ رب کے حضور مانگتے ہیں کہ اسی ذات نے دینا ہے اور دل کی اَتھاہ گہرائیوں سے دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور دعا قبول فرماتے ہیں۔
میرا ایک دفعہ بٹوا گُم ہوگیا، چونکہ میرے ساتھ یہ پہلی دفعہ ہوا تھا تو میں کچھ زیادہ ہی پریشان ہوگیا۔ پریشانی کی وجہ سے نیند کوسوں دور تھی پھر اچانک کسی خیال کے تحت بستر سے اُٹھا وضو کیا اور نفل پڑھ کے دعا کی کہ اے اللہ مجھے میرا بٹوا واپس مل جائے۔ دل سے پورے یقین کے ساتھ جب بٹوا مانگا تو یقین کریں مجھے پتہ چل گیا تھا کہ میرا کام ہوگیا ہے میری دعا قبول ہوگئی ہے۔ دل پر سکون ہوگیا تھا اور مجھے نیند بھی آ گئی تھی۔
اگلے ہی دِن مجھے میرے بینک سے کال آئی اور جن کو میرا بٹوا ملا تھا اُن کا نمبر مجھے دے دیا گیا۔ وہ صاحب یتیم خانے کے رہنے والے تھے اور میں پھر اُن کے گھر جا کر بٹوا لے آیا جس میں سب کچھ ویسے کا ویسے ہی تھا۔ ابھی کل ہی میں ثاقب رضا مصطفائی صاحب کو سُن رہا تھا وہ حضرت عمرؓ کا واقعہ سنا رہے تھے۔
ایک شرابی تھا اُس نے شراب کی بوتل پکڑ رکھی تھی اور اُس کی نظر اچانک حضرت عمرؓ پہ پڑ گئی اور حضرت عمرؓ اُسی شرابی کی طرف ہی آ رہے تھے تو اُس نے فوراً رب کی طرف رجوع کیا اور کہا کہ اے خُدا بس آج حضرت عمرؓ کے قہر سے بچا لے آج کے بعد شراب کو ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا۔ اِتنے میں حضرت عمرؓ اُس کے سَر پہ پہنچ گئے اور اُس سے پوچھا کہ بتا اِس بوتل میں کیا ہے؟ وہ لڑکھڑاتی ہوئی زبان کے ساتھ بولا کہ حضور سِرکہ ہے۔ وہ بھی حضرت عمرؓ تھے انہوں نے کہا کہ بوتل کھول کے دِکھا تو اُس شرابی نے ڈرتے ڈرتے جب بوتل کا ڈھکن کھولا تو وہ شراب واقعی سِرکے میں بدل چکی تھی۔
سبحان اللہ۔
میرا وہ رب جو شراب کو سِرکہ میں بدل دینے پہ قادر ہے کیا ہمارے گناہ معاف نہیں کر سکتا؟ کیا ہماری دعائیں قبول نہیں کرے گا؟
پہلی فرصت میں ہی اُس کے پاس جا کر تو دیکھو۔
مگر ہم اپنے ہی جُگاڑ لگانے میں لگے رہتے ہیں اور جب تھک ہار جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ نے یہ مصیبت ہمارے نصیب میں ہی لکھنی تھی۔
اللہ کے ایک نیک بزرگ فرماتے ہیں کہ اے بندے تُو خُود سیانا نہ بنا کر بلکہ اپنی تمام پریشانیوں، مصیبتوں اور مسائل کی گھٹڑی اُٹھا کر اپنے رب کے حضور پیش ہو جایا کر اور نہایت عاجزی کے ساتھ کہا کر اے میرے اللہ یہ میری دُکھوں کی گھٹڑی تیرے سامنے ہے تُو ہی میرا مولا ہے اور تُو ہی مجھے اِن تمام پریشانیوں سے چھٹکارہ دِلا سکتا ہے۔ پھر دیکھ خُدا کیسے تمہیں اِن مصیبتوں سے نکال باہر پھینکے گا۔ مگر تُو پہلی ہی فرصت میں یقین کے ساتھ اُس کے پاس جا کر تو دیکھ۔ جیسے میں اللہ کے پاس گیا جیسے یہ شرابی نے فوراً رجوع کیا اور بچ گیا۔
وہ سب سُنتا ہے۔ اُسی نے ہی تکلیفوں سے نجات دینی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ اُس کے پاس جانا ہے اور اُسی سے مانگنا ہے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔