Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Akhri Utran

Akhri Utran

آخری اُترن

مجھے بچپن سے ہی کہانیاں سننے اور پڑھنے کا بہت شوق رہا ہے۔ بچوں کے رسائل بہت پڑھے پھر کچھ بڑا ہوا تو ڈائجسٹ پڑھنے شروع کر دیے۔ سسپنس ڈائجسٹ بہت پڑھا۔ اُس کی سب سے پہلی کہانی جو تاریخ پر مبنی ہوتی تھی اور پھر آخری کہانی۔ یہ دو کہانیاں میں سب سے پہلے پڑھا کرتا تھا۔ سسپنس ڈائجسٹ میں سب لکھاری ہی عمدہ لکھتے تھے۔ ہر لکھاری کا اپنا منفرد انداز پڑھنے والے کو گرویدہ کر دیتا تھا۔

میں اکثر اس بات کا اظہار کرتا نظر آتا ہوں کہ میں بےشک لاہور شہر کی رنگینیوں میں کہیں کھو گیا ہوں مگر میرا اندر اب بھی کسی گاؤں کی طرح آباد ہے۔ جہاں سرسبز کھیت ہیں، ٹیوب ویل ہیں، سادے لوگ ہیں اور محبت کی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ مجھے سسپنس ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے جس لکھاری نے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا وہ ناصر ملک صاحب ہیں۔

ان کی کہانیاں انتہائی سادہ مگر دل میں اُتر جانے والی ہوتیں ہیں۔ ان کی کہانیوں کا موضوع اکثر کسی گاؤں کے سرکاری ہسپتال کے چند محبت کرنے والوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پیراسیٹا مول، گلوکوز کی بوتل اور سادے لوگ جو محبت کر بھی لیں تو اظہار کرتے جھجھکتے ہیں۔ شرم اور لاج آڑے آتی ہے۔ بس اکھیوں سے، نینوں کے باٹ چلا کر ایک دوسرے کو زخمی کرتے رہتے ہیں۔ یہ سالوں پرانی بات ہے جب اِسی موضوع پر مبنی ان کی ایک کہانی "آخری اُترن" کے نام سے ڈائجسٹ میں پڑھی تھی۔

یہ کہانی بھی کسی ریگستان کے ایک سرکاری ہسپتال میں پروان چڑھتی محبت کی ہے جس کے راستے میں کئی رکاوٹیں آتی ہیں۔ محبت کے علاوہ ایک اور حساس موضوع بھی کہانی میں جان ڈالے رکھتا ہے۔ کہانی کے سب سے مضبوط کرداروں میں ماہ نور ڈاکٹر عرف نوری، مقبول اور نوجوان رحمت اللہ ہے۔ یہ کہانی مجھے آج تک نہیں بھولی۔ پھر سے پڑھنے کا اشتیاق ہوا تو محترم ناصر ملک سے درخواست کرکے پھر منگوا لی۔

گاؤں عید گزارنے آیا تو کئی یادیں تازہ ہوگئیں۔ گاؤں میں ہی 112 صفحات پر مشتمل یہ ناول مکمل کیا۔ اس بار بھی اُتنا ہی مزہ آیا جتنا پہلی مرتبہ پڑھنے میں آیا تھا۔ کہانی کا ہر کردار جاندار اور مکمل ہے۔ پلاٹ، تھیم اور موضوع سب ہی باکمال ہے۔ میں یہاں ایک بڑی بات کرنے جا رہا ہوں کہ اگر کوئی مجھ سے میری ساری زندگی کا کوئی بہترین پڑھا ہوا پوچھے تو میں بلا جھجھک اِس کہانی کا نام لوں گا۔ یہ کہانی میرے دل کے بہت قریب ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید میں ان کرداروں میں سے کوئی کردار رہا ہوں۔

محبت کے اصل معنی بتاتی اور دلوں کے چیرتی، گھائل کرتی یہ کہانی اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھتی ہے اور اختتام اس قدر اچھا ہے کہ مصنف کو داد دیے بغیر رہا ہی نہیں جاتا۔ ناصر ملک صاحب اگر اس دنیا میں آپ کی اِس کہانی کا کوئی فین موجود ہے تو وہ میں ہوں اور ہمیشہ میں ہی رہوں گا۔ دعا ہے کہ اللہ آپ کے قلم سے ایسے شاہکار لکھواتا رہے تاکہ مجھ جیسے پڑھ پڑھ کر سر دھنتے رہیں۔ عش عش کرتے رہیں۔

Check Also

Batti On Karen

By Arif Anis Malik