Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Aik Yaad, Kuch Purani Baatein

Aik Yaad, Kuch Purani Baatein

ایک یاد، کچھ پرانی باتیں

بادل اچانک آئے تھے اور آتے ساتھ ہی پورے آسمان اور میرے دل کو اپنی لپیٹ میں کر لیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی تھی۔ یہ میری پہلی بارش تھی جو میں مری میں دیکھ رہا تھا۔ اِس سے پہلے بھی میں کئی بار مری آ چکا تھا مگر بارش کبھی نہیں دیکھی تھی لیکن شاید اس بار یہ مری مجھے خالی ہاتھ نہیں لوٹانا چاہ رہا تھا اور شاید اسی لیے ہی میری بنجر آنکھوں کو بارش کے پانی سے سیراب کرنے میں پوری طرح مگن تھا۔

میں اپنے ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی کھولے باہر دیکھ رہا تھا۔ بارش کسی بچے کی طرح شور مچا رہی تھی۔ درختوں کی شاخیں شائیں شائیں کا گیت گنگنانے لگیں تھیں۔ تیز ہوا بارش کے ننھے منھے قطروں کو ایسے اِدھر اُدھر پھینک رہی تھی جیسے کوئی بدبخت دعا پوری نہ ہونے کے غصےمیں اپنی تسبیح کو توڑ مروڑ کے اس کے دانے بکھیر دیتا ہے۔ اندھیرا، شام کو نگل رہا تھا تو اسی وجہ سے اوپر نیچے ہوتیں یہ بل کھاتیں سڑکوں پہ گاڑیوں کی روشنیاں واضح دکھائی دینے لگیں تھیں۔ جانے کتنی دیر ان تیز ہوتیں روشنیوں میں کھویا رہتا کہ تیز ہوا کے ایک جھونکے نے بارش کے کئی قطرے میرے منہ پہ دے مارے تھے۔ بارش کے قطرے منہ پہ پڑے تو یاد آیا کہ ایسے ہی ایک تھپڑ محبت نے بھی مجھے مارا ہے۔ جس کا نشاں چہرے سے زیادہ دل پہ واضح دکھائی دیتا ہے۔

بارش تھم چکی تھی مگر میں وہیں کھڑا تھا، کھلی کھڑکی کے پاس جس کی جالی ادھڑی ہوئی تھی اور اسی وجہ سے ہی باہر کا موسم زیادہ اچھے سے دکھائی دے رہا تھا۔ ادھڑی ہوئی جالی سے یاد آیا کہ میرے سینے کے اندر بھی کئی چیزیں ادھڑ چکی ہیں۔ لیکن مجھے پھر بھی اپنے اندر کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہاں سنائی بہت کچھ دے رہا تھا۔

ایک لڑکا۔۔ ایک لڑکی۔۔ اور محبت میں آیا تیسرا شخص۔۔ لڑکے کی چیخیں مگر شاید وہ گونگی چیخیں تھیں کیونکہ اگر اُن کی کوئی آواز ہوتی تو لڑکی واپس پلٹ کے ضرور دیکھتی مگر وہ نہیں پلٹی بلکہ محبت میں آئے تیسرے شخص کی طرف چلی جا رہی تھی جو اپنی باہیں کھولے لڑکی کو اِن باہوں میں سمانے کے لیے بیتاب نظر آ رہا تھا۔

اچانک دروازہ بجا تو میں اِس درد بھرے خواب سے جاگا۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ویٹر رات کا کھانا لیے کھڑا ہے۔ ٹرے پکڑ کر ویٹر کو شکریہ کہا اور کمرے میں آ گیا۔ ابھی بارش سے پہلے کی بات ہے کہ مجھے بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔ جانے کہاں چلی گئی، پتہ ہی نہیں چلا۔ شاید بارش کے قطروں نے درختوں کے پتوں کہ طرح میری بھوک کو بھی دھو ڈالا تھا۔

کھانا اُدھر ہی چھوڑا اور اپنا لانگ کوٹ پہن کر باہر نکل گیا۔

رات کا اندھیرا اچھی خوشبو کی طرح چاروں طرف پھیل چکا تھا اور برفباری بھی شروع ہو چکی تھی۔

جی پی او پہ خوب رش تھا۔ لوگوں کا ہجوم آسمان کے تاروں کی طرح انگنت تھا۔ میں نے نیچے مال روڈ کیطرف چلنا شروع کر دیا تھا۔ سردی کی شدت ایسے بڑھ رہی تھی جیسے نئی محبت پروان چڑھتی ہے۔ وہم ہونے لگتا ہے کہ بہت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔

میں مری مال روڈ سے گزرتا ہوا آگے چھاؤنی کے قریب ٹھنڈی سڑک کنارے رکھے بینچ پہ جا بیٹھا تھا۔ رات کا ایک بج رہا تھا اور مسلسل برفباری، رات کے درجہ حرارت کو منفی میں دھکیل رہی تھی۔

برفباری کی وجہ سے سڑک پہ رش بڑھ گیا تھا جس میں زیادہ تر کپلز ہی دکھائی رہے تھے۔ کوئی لانگ کوٹ پہن کر اس بڑھتی سردی سے بچ رہا تھا تو کوئی موٹی شالز لیے واک کرنے میں مصروف تھا۔ بعض کپلز ایک ہاتھ میں گرما گرم چائے یا بھاپ اڑاتی کافی کا کپ تھامے جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ محبوب کا ہاتھ پکڑے چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتے، باتیں کرتے پنڈی پوائنٹ کی طرف رواں دواں تھے۔ مری کی یہ سڑک کسی رومانوی فلم کا سین پیش کر رہی تھی۔

برفباری اسی رفتار سے ہو رہی تھی جس کی وجہ سے سڑک، مکان اور پہاڑ سفید چادر تلے چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ سڑک کنارے لگیں لائٹوں میں گرتی برف کا نظارہ اپنے سحر میں جکڑنے لگا تھا مجھے۔

میں پھر سڑک پر چلتے جوڑوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ اب اکثر کا رخ واپس اپنے اپنے ہوٹلز کی طرف تھا۔ اکا دکا ہی لوگ تھے جو کہ مخالف سمت کی طرف جا رہے تھے۔

تھوڑی دیر کے بعد برفباری تھمی تو چاند نے بادلوں میں سے جھانکنا شروع کر دیا تھا۔ یہاں مری کا موسم ایسا ہی بےاعتبارا سا رہتا ہے۔ بادل آتے جاتے رہتے ہیں۔ کبھی دھوپ کبھی چھاؤں تو کبھی گھنگھور گھٹائیں چھم چھم برستی ہیں اور پھر پلک جھپکتے ہی غائب ہو جاتی ہیں۔

آسمان صاف ہوگیا تھا اور چاند کی دودھیا روشنی برف سے ڈھکی ہر شے کو حسن دان کرنے لگ گئی تھی۔ سڑک، اور پہاڑ سفید برف کی دبیز چادر اوڑھے بڑا ہی دل موہ سا نظارا پیش کر رہے تھے۔ لگ رہا تھا جیسے زمین پہ جنت اتر آئی ہو۔

لیکن جب اندر کا موسم ہی خراب ہو تو باہر کا موسم جیسا مرضی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ ہجر وہ پھوڑا ہے جو سکون کا ایک پل بھی میسر نہیں آنے دیتا۔ رات کی نیند چھین لیتا ہے۔

وصل کی دعائیں ہاتھ کی بند مٹھی سے ریت کی مانند پھسلنے لگتی ہیں۔ کچھ باقی نہیں بچتا، سب بہہ جاتا ہے۔ بند مٹھی جب کھلتی ہے تو خالی اور ننگی ہتھیلیاں منہ چِڑانے لگتی ہیں۔

میرے اندر بھی ہجر کا پھوڑا نکلا ہوا تھا جو بےچین کیے رکھتا تھا مجھے اور لمحہ بھر کے لیے سکون نہیں لینے دیتا تھا۔

اِسے میری بدبختی کہیے کہ مجھے ایک بےوفا انسان سے محبت ہوگئی تھی اور ویسے بھی بیوفائی جانچنے کا کوئی پیمانہ تو ابھی تک ایجاد ہو نہیں سکا تھا جو میں معلوم کر پاتا کہ محبوب وفا دار ہے یا بیوفا؟

ہاتھ تو ہمیشہ گرم ہی ہوتے تھے اُس کے، کبھی ٹھنڈے محسوس بھی نہیں ہوئے تھے جو اُس کی بیوفائی کی طرف میرا دھیان جاتا۔

میں واپس کمرے میں لوٹ آیا تھا۔

باہر پھر برفباری شروع ہوگئی تھی۔ میں نے کھڑکی کے پٹ کھول دیے تھے اور باہر گرتی ہوئی برف کے ہلکے پھلکے اور ٹھنڈے ٹکڑوں کو اپنے ہاتھ کے تھپیڑوں سے ادھر ادھر اڑانے لگا تھا۔

وقت بڑی تیزی سے صبح کی طرف بھاگ رہا تھا لیکن میرے دل کے دھڑکنے کی رفتار اُس سے بھی کہیں زیادہ تیز تھی۔

مجھے صبح لاہور واپس لوٹنا تھا!

Check Also

Imran Khan Ya Aik Be Qabu Bohran

By Nusrat Javed