Aap Quli Nahi Hain
آپ قُلی نہیں ہیں
سورج آگ اُگل رہا تھا اور زمین کسی تابنے کی طرح تپ رہی تھی۔ جولائی کی گرمی اپنے عروج پر تھی اور ہم تینوں ایک کچے مگر چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایک بڑا سا ٹب بھی ہمارے سامنے پڑا تھا جس کے گدلے پانی میں برف کے کچھ ٹکڑے اور آم تیر رہے تھے۔ یہ بہاولنگر کا ایک نواحی گاؤں تھا جس کی بیٹھک میں بیٹھے ہم آم کھا رہے تھے۔
ہم تینوں میں میرا ایک دوست اور میں تھا جبکہ تیسرے انسان ہمارے دور پار کے ایک رشتہ دار تھے جو کہ ابو سے کسی کام کے سلسلے میں ملنے آئے ہوئے تھے۔ وہ لگ بھگ ستر برس کے تھے اور بہت ہی معتبر شخصیت کے مالک بھی۔ سفید داڑھی میں بہت ہی بھلے معلوم ہو رہے تھے۔
میرا دوست کسی پریشانی میں میرے پاس آیا تھا مگر بابا جی کی موجودگی میں وہ اسی کشمکش میں تھا کہ اپنی بات بتائے یا نہیں۔ اور ان کے ہوتے ہوئے مجھے باہر لے کر جانا بھی قطعاً ٹھیک بات نہیں تھی۔ میں نے اپنے دوست کے چہرے کے تاثرات پڑھتے ہوئے کہا کہ ہاں تو بتاؤ یار کیا پریشانی آ گئی ہے تمہیں، بتا دو شاید یہ بابا جی کا ہی کوئی مشورہ تمہارے کام آ جائے۔ اس لیے میری مانو تو بلا جھجھک اپنا مسئلہ بتا دو۔
ہاں میرے بیٹے آپ اپنی پریشانی بتا سکتے ہو، مجھ سے جتنا ہو سکا میں اچھا مشورہ دینے کی پوری کوشش کروں گا۔ بابا جی آم کی گھٹلی کا گودا کھاتے ہوئے بولے۔
میرا دوست کچھ دیر تو چپ رہا، شاید کہانی کو لفظوں سے جوڑنے میں مصروف تھا یا یہ سوچنے میں کہ وہ اپنا مسئلہ بتائے یا رہنے دے۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد وہ دروازے سے باہر کہیں دور تلک دیکھتے ہوئے بولا۔
یہ زندگی کیا ہے، کوئی بےثمر شاخ، ادُھورا خط یا بانجھ عورت کچھ سمجھ نہیں آتا مجھے؟ لیکن میں اِسے گُزار رہا ہوں۔ جیسے کوئی بیوہ گزارتی ہے یا اُس قیدی کی طرح جو جیل میں پڑا اپنی پھانسی کے دن کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔
یہی زندگی کچھ لوگوں کے لیے کس قدر تلخ ہوتی ہے۔ کسی کڑوی کسیلی کافی کی طرح جو اگر کسی میزبان نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے تو آپ کو پینی ہی پڑتی ہے۔ انکار کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں بچتی۔ بالکل ویسے ہی یہ زندگی بھی ہمیں عطا ہوگئی ہے اور ہمیں اِسے جینا ہے۔ اور میں بھی بس اسے جیے جا رہا ہوں چپ چاپ خاموشی کے ساتھ۔
مجھے گھریلو پریشانیوں کا سامنا ہے جن میں کچھ صرف میری ذات سے وابستہ ہیں جس کی وجہ سے زندگی بڑا بوجھ لگنے لگ گئی ہے مجھے۔ سکون غارت ہو کر رہ گیا ہے میرا۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں؟ پھر اُس نے بات ختم کی اور بابا جی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگ گیا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا بابا جی بولے، بات یہ ہے بیٹا کہ
زندگی خُوشی اور غم کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اِس میں کبھی خوشیوں سے واسطہ پڑجاتا ہے ہمارا تو کبھی غم ہی غم دامن میں آ گِرتے ہیں۔
اب یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم نے اِسے کیسے گزارنا ہے؟
یہ بات سچ ہے کہ زندگی سب کے لئے ریشم کے نرم بستر کی طرح نہیں ہوتی لیکن ہمت ہار جانا یا محتاجیوں کو ہی اپنی قسمت سمجھ لینا یہ بھی تو زندگی کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے نا میرے بچے۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھو کہ آپ قُلی نہیں ہیں جو ہر وقت پریشانیوں کا، لوگوں کے بُرے رویوں کا، تلخیوں کا، گھریلو ناچاقیوں کا اپنی ڈھیروں خواہشات کا، رشتوں کا اور زیادتیوں کا بوجھ اٹھائے پھرتے رہیں گے۔
کبھی زندگی میں ایسا ہو کہ یہ زندگی ایسے بوجھ کی طرح ہو جائے جو برداشت کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے آپ کے صبر کے شیرازے بھی منتشر کرنا شروع کردے تو گھبرانا نہیں ہے۔ بلکہ صبر رکھنا ہے۔ اس اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے لیے آسانیوں کی دعا کرنی ہے۔ اصل میں ہم انسان اپنی پہچان ہی بھول گے ہوئے ہیں۔ اپنے مقصد سے ہٹ گے ہیں۔ زرا سا دُکھ یا تکلیف ملتی ہے تو تلملا اٹھتے ہیں۔ بےصبرے ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اللہ کسی پر بھی اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہی نہیں۔
بابا جی نے ٹب میں ہاتھ ڈال کر اگلا آم اٹھایا اور اسے گول گول گھما کر ہاتھ سے مسلنے لگے پھر دوبارہ سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ کیا تمہارا غم حضرت ہوسفؑ سے زیادہ بڑا ہے جنہیں اُن کے بھائیوں نے کنویں میں پھینک دیا تھا، جنہیں چھوٹی عمر میں ہی باپ سے جدا کر دیا گیا تھا، جن کی سر عام بازار میں بولی لگی تھی، جو بےگناہ ہوتے ہوئے بھی جیل میں قید رہے تھے۔ اور کیا حضرت یعقوبؑ نہیں تھے تڑپے اپنے بیٹے کے لیے، کیا آنکھوں کی بینائی ایسے ہی کھو دی تھی اُنہوں نے؟ یقیناً نہیں۔ لیکن اِن تمام پریشانیوں اور مسائل کے باوجود اُن کا اپنے رب پہ یقین بڑا مستحکم رہا تھا۔ اُن کی زباں پہ کبھی کوئی گلہ شکوہ نہیں تھا آیا بلکہ وہ تو رب کی رضا میں راضی ہو گے تھے اور پھر رب نے بھی انعام کے طور پر بادشاہت سے نواز دیا تھا اور دونوں کی جدائی کو ختم بھی کر دیا تھا۔
دیکھا جائے تو کِس نبی نے دُکھ نہیں دیکھے، کِس اللہ کے پیارے نے پریشانیوں کا سامنا نہیں کیا۔ دُکھ، سکھ زندگی کا حصہ ہیں بیٹا اِنہیں اللہ کی آزمائش سمجھ کر صبر کر اور بس اُسی کے آگے ہاتھ پھیلا اور اُسی سے مدد مانگ۔ بےشک وہی ہے جو بہترین کارساز ہے۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو بیٹا۔ بابا جی نے میرے دوست کے سر پہ ہاتھ پھیر کے بات ختم کر دی تھی۔ بابا جی کی باتوں سے میرا دوست کافی حد تک مطمئن نظر آ رہا تھا۔ اُس کی رنگت سے تازگی جھلکنا شروع ہوگئی تھی۔ اس نے بابا جی کا شکریہ ادا کیا اور ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا وہاں سے رخصت ہوگیا۔