Karbala, Hikmat o Danai Ke Maqabil Makkari o Ayyari
کربلا، حکمت و دانائی کے مقابل مکاری و عیاری
انسان اور حیوان کے درمیان اگر کوئی فرق ہے تو وہ عقل کا ہے۔ یہ عقل ہی ہے جس نے بنجر زمینوں پر کھیت لہلہا دیئے، فصلیں کاٹیں۔ یہ عقل ہی ہے جس نے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا اور انسانی سروں کی فصلیں کاٹیں۔ اگر عقل پر خواہش نفسانی پر پھیلائے تو مکاری و عیاری محو پرواز ہو کر فسق و فجور کے سیاہ گھپ اندھیرے پھیلاتی ہے اور اگر عقل پر انسانیت غالب آ جائے تو ہر طرف امن و آشتی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ دنیا میں انسان نے اچھا یا برا جو کچھ کیا وہ اسی عقل کی مرہون منت ہے۔
مکر و فریب، دغا بازی، حیلہ گری، بہانہ سازی، دھونس، دھاندلی، دھمکی وغیرہ مکاری و عیاری کے اجزائے خبیثہ ہیں۔ اس کے بر خلاف ذات سے بالاتر اور عددی کثرت و قلت اور ناموافق حالات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مقام انسانیت، اصلاح معاشرہ، صلہ رحمی، مساوات، عدل و انصاف اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانا حکمت و دانائی کے اوصاف حمیدہ ہیں۔ مکاری و عیاری پروردہ ظلمت ہے تو حکمت و دانائی پابند انسانیت ہے۔ مکاری و عیاری فسق و فجور کی آماجگاہ جبکہ حکمت و دانائی مظلوم کی پناہ گاہ ہے۔ مکاری اور عیاری خوشنما بھیس بدل کر دھوکا دیتی ہے جبکہ حکمت و دانائی سادہ مزاجی و یقین کامل کی حامل ہے۔
اس میں کوئی کلام نہیں کہ امام عالی مقام (آپ چاھیں تو علیہ السلام پڑھیں یا رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ مقامِ امام عالی مقام کو سمجھیں) اور یزید لعین کا کوئی تقابل یا موازنہ نہیں۔ واقعہ کربلا کو اگر ایک عام انسانی ذہن تعصب کی عینک لگائے بغیر پڑھے تو اسے یہ بات یقینی طور پر نظر آئے گی کہ واقعہ کربلا تاریخ انسانی کا ایک ایسا انمٹ واقعہ، ایک ایسا لازوال سبق ہے جس کے ورق ورق پر عیاری و مکاری کی عارضی و پرفریب جیت اور حکمت و دانائی کی دائمی فتح لکھی ہے۔ امام عالی مقامؑ حکمت و دانائی کے رہبر عظیم جبکہ یزید مکاری و عیاری کا فاسق و فاجر نمائندہ تھا۔
واقعہ کربلا سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں مکاری و عیاری نے کیا کیا چالیں نہ چلیں۔ کیا کیا نہ روپ دھارے مگر حکمت و دانائی نے ہر مقام پر اس کے چہرے اور ارادوں کو طشت از بام کردیا۔ مکاری و عیاری کی خاص خوبی یہ ہے کہ انسان اس میں خود کو خدا (نعوذ باللہ) سمجھنے لگتا ہے۔ حکمت و دانائی کا بنیادی وصف یہ ہے کہ وہ بندے کو اپنے رب سے جوڑے رکھتی ہے۔ مکاری و عیاری موقع پرست جبکہ حکمت و دانائی حق پرست ہوتی ہے۔
یزید تخت نشیں ہوا تو مکاری و عیاری نے مدینے میں پہلی چال چلی۔ امام عالی مقامؑ نے پہلے جملے "میرے جیسا کوئی شخص یزید جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتا" میں ہی حکمت و دانائی سے یزید کے ناپاک ارادوں کا پردہ چاک کر دیا تھا۔
حکمت و دانائی عازم مکہ ہوئی۔ ارادہ حج کا تھا۔ مکاری و عیاری نے دوران حج حرمت کعبہ کو خوں آلودہ کرنے کی سازش کی۔ حکمت و دانائی نے حج کو عمرے میں تبدیل کیا اور کوفے کی جانب روانہ ہوئی۔ کربلا کے مقام پر آگے کی راہ مسدود کردی گئی۔ مکاری و عیاری کو لگا کہ میدان اس کے ہاتھ آ گیا، حکمت و دانائی کو اس بے آب و گیا زمین پر جیسے چاھیں گے مار دیں گے۔
لشکر پر لشکر آتے رہے۔ مکاری و عیاری کر و فر میں مبتلا تھی۔ اسے اپنے لشکر کثیر و اسلحے پر ناز تھا۔ دوسری طرف حکمت و دانائی کو اپنے قافلہ مختصر اور اصلاحِ امت کا بیڑا اٹھانے پر فخر تھا۔ دونوں اپنی اپنی تاریخ رقم کرنے والے تھے۔ مکاری و عیاری کی سیاست دنیاوی غلاظتوں کا بدنما چہرہ تھی جبکہ حکمت و دانائی سیاست الہیہ کی نمائندہ تھی۔ شب عاشور مکاری و عیاری نے حکمت و دانائی سے کہا تھا موت قریب ہے۔ حکمت و دانائی نے مکاری و عیاری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔
دس محرم سن اکسٹھ ہجری کو کربلا خون سے رنگین ہوگئی۔ بعد ازاں خانوادہ رسول ﷺ کو بازاروں، درباروں میں لے جایا گیا۔ اسیری ہوئی۔ مکاری و عیاری نے جو چاھا وہ کیا مگر حکمت و دانائی کو معلوم تھا "وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ"۔
امام عالی مقامؑ کی شہادت تا ابد تمام عالم انسانیت کے لیے ہے۔ انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار اسلام ہے جو ہم تک نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعے پہنچا جس کی سب سے بڑی گواہی آپ کے پیارے نواسے امام عالی مقامؑ نے حکمت و دانائی سے دی۔
دینِ احمد ﷺ کی گواہی دی سرِ شبیرؑ نے
اور دنیا تجھ کو اب کس کی شہادت چاھیئے