Ghar Pahunchte Hi Phone Zaroor Kar Dena
گھر پہنچتے ہی فون ضرور کر دینا
کل حلقہ احباب ذوق کراچی نے ہفتہ وار نشست شمع فروزاں کے عنوان سے منعقد کی۔ والد کوثر سلطان ہوری سے متعلق فی البدیہہ گفتگو کی۔ کافی دیر اسی کے اثر میں رہا، سوچتا رہا۔ پروگرام کی ویڈیو دیکھتا رہا۔
آج اپنے والد مرحوم کے گھر سے واپس ا رہا تھا۔ والدہ کو خدا حافظ کہا۔ انہوں نے ساتھ خیریت کے گھر پہنچنے کی دعا دی۔ میں ابھی گاڑی چلا کہ کچھ دور ہی گیا تھا کہ مجھے 20 سال پرانے دن یاد آنے لگے۔ جب ہم گھر کے لیے نکلتے تو والد گاڑی کے پاس کھڑے رہتے۔ پیچھے بیٹھے بچوں سے ہاتھ ملاتے اور ہاتھ ملاتے ہوئے بہت خاموشی سے دروازے چیک کر لیا کرتے۔ وہ سمجھتے کہ کوئی اس بات کو محسوس نہیں کرے گا۔ مجھے پتہ ہوتا کہ وہ یہ ضرور کریں گے۔
ابھی میں آگے بڑھ ہی رہا ہوتا تو کہتے: گھر پہنچتے ہی فون ضرور کر دینا۔ میرے گھر کا فاصلہ 6 کلو میٹر سے زیادہ نہ ہوگا۔ میں گھر پہنچ کر انہیں کال ضرور کرتا اور اگر کبھی کسی وجہ سے ذہن میں نہ رہتا تو کوئی کچھ ہی منٹوں میں والد کا فون ا جاتا: آپ نے فون نہیں کیا؟ گھر پہنچ گئے؟ میں شرمندہ ہو جاتا: وہ ابو میرے ذہن سے نکل گیا تھا۔ فورا کہتے: ارے میاں، کیسے ذہن سے نکل گیا۔ ہم انتظار کر رہے تھے۔ والد صاحب کو اندازہ تھا کہ مجھے گھر پہنچنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ اس لیے وہ میری کال نہ آنے پر دو چار منت بعد فون کرتے۔
والد صاحب پھر اپنے طور وضاحت بھی دے دیتے گو کہ انہیں اس کی قطعا ضرورت نہ تھی: مجھے یہ خیال گزرا کہ تم کہیں راستے میں سامان خریدنے نہ رک گئے ہو۔ یا کبھی کہتے: وہ مجھے کسی نے بتایا کہ آج روڈ ہر ٹریفک بہت ہے۔ میں نے سوچا تم ٹریفک میں نہ پھنس گئے ہو۔ اصل میں وہ اپنی پریشانی کو چھپانا چاہتے تھے۔ والدہ مجھ سے اکثر کہا کرتیں: تم چلے جاتے ہو۔ جب تک تمہارا فون نہ ا جائے، تمہارے ابو ادھر سے ادھر ٹہلتے رہتے ہیں۔ میں کہتی بھی ہوں ارے سیدھا سیدھا روڈ سے جانا ہوتا ہے۔ آپ بے کار میں پریشان ہوتے ہیں۔ والدہ لاکھ کہتیں مگر جب تک بات نہ ہو جانے، والد کی پریشانی نہیں جاتی۔
ایک مرتبہ دفتر سے نئی گاڑی ملی۔ ہم تیز بارش میں بیوی بچوں کو لے کر نکل پڑے۔ والد کے ہاں پہنچے۔ بہت ناراض ہوئے: یہ آپ نے کیا کیا؟ اتنی تیز بارش میں بیوی بچوں کو لے کر کیوں آ گئے۔ راستے میں گاڑی بند ہو جاتی تو؟ میں نے کہا: نئی گاڑی ہے ابو۔ بند تھوڑی ہوگی۔ بولے: گاڑی کا کیا بھروسہ۔ اتنی تیز بارش میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہوگا۔ بس آپ جلدی گھر جائیں۔ والدہ نے کہا کہ ابھی تو ایا ہے۔ سانس تو لینے دیں۔ کسی کی نہ چلی۔ ہم گاڑی میں بیٹھے وہ پھر باہر، وہی بچوں سے ہاتھ ملایا، خاموشی سے دروازے چیک کیے اور اس بار بہت تاکید سے کہا: گھر پہنچتے ہی فون ضرور کر دینا۔
یہ تاکید سب کے والدین کیا کرتے ہیں مگر ہم اس وقت بہت دھیان نہیں دیتے۔ میری اس بات کی تائید بہت لوگ کریں گے۔
ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں
باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں
(شاعر نامعلوم)