Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Angrezi Ki Beemar Nawaziyan

Angrezi Ki Beemar Nawaziyan

انگریزی کی بیمار نوازیاں

کورونا کا رونا چل رہا تھا۔ ہمیں خبر ملی کہ ہمارے ایک دوست بیمار ہیں۔ ذہن میں آیا سادہ والا ہوا یا اسپیشل (کیا کیجئے کہ اس زمانے میں لوگ یہی کہا کرتے تھے)؟ دوست کے موبائل پر کال کی تو بھابھی صاحبہ نے اٹھایا۔ باتوں باتوں میں اندازہ ہوگیا کہ معاملہ سادہ کا ہے۔ دل کو تسلی ہوئی اور ان کے گھر ماسک لگا کر پہنچ گئے۔

گیٹ کھٹکھٹایا۔ گھر میں داخل ہوئے اور مریض کے کمرے میں جا پہنچے۔ دوست صاحب فراش ضرور مگر ہوش و حواس میی تھے۔ چہرے پر بے چارگی اور خاموشی "جلوہ افروز " تھی۔ ہاتھ ملایا ہی تھا کہ بھابھی صاحبہ بھی ساتھ ہی آکر بیٹھ گئیں۔ میں نے مزاج پرسی کرتے ہوئے دوست سے پوچھا: کیوں بھائی کیا ہوگیا؟ دوست کے جواب دینے سے پہلے بھابھی نے تفصیلات سے آگاہ کرنا شروع کر دیا:

اے بھیا! ذرا دیکھیں تھائی لینڈ نے کیا حالت کر دی ہے ان کی۔ آپ کو تو پتہ یے پانی کی طرح پیسہ بہتا ہے اس میں۔

میں نے جو تھائی لینڈ کا سنا تو ذہن نہ جانے کہاں کہاں لینڈ کرنے لگا۔ بھابھی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا: صحیح کہہ رہی ہیں تھائی لینڈ میں تو پیسہ پانی کی طرح بہتا ہے۔ یہ کہہ کر میں نے ذومعنی انداز میں دوست کو دیکھا اور داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے سوچا ہم جو اس کی شرافت کی قسمیں کھایا کرتے تھے تو کیا اب وہ قسمیں تھائی لینڈ سے آیا کریں گی۔ دوست میری کیفیت جانچ گیا۔ ابھی اس نے لب کشا ہونے کے لئے دونوں لبوں کو جنبش ہی دی تھی کہ بھابھی کے لب گویا ہو گئے:

تم چپ بیٹھے رہو۔ میں بتا رہی یوں۔ ڈاکٹر نے منع کیا ہے بولنے سے۔ کسی سے ضرورت نہیں اپنا حال کہنے کی۔

انہیں لگا کہ کچھ زیادہ بول گئی ہیں، معذرتانہ لہجے میں بولیں: بھیا برا نہ منائیے گا۔ وہ کیا یے کہ ڈاکٹر نے انہیں بولنے سے منع کیا ہے۔ گلے میں تکلیف جو بڑھ جاتی ہے۔

اب جو میں نے گلے کی تکلیف کا سنا تو گھبرا سا گیا۔ دوست بے چارہ منہ بند۔ تصدیق و تردید کی سند کون دیتا؟ بیوی کے خوف ذدہ احترام میں وہ شب زفاف سے مبتلا ہے، دوستوں میں اس کی مثال دی جاتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو دوستوں کی موجودگی میں موبائل پر ہونے والی گفتگو کی تمثیل بھی پیش کر دی جاتی ہے۔ خیر میں نے پوچھا:

بھابھی یہ تھائی لینڈ والا معاملہ کب سے چل رہا ہے؟ شادی سے پہلے کا تو نہیں؟

دونوں ہاتھ جوڑے اور آسمان کی طرف اٹھا کر دعائیہ انداز میں بولیں: اللہ جانے بھیا۔ شادی سے پہلے ہوا کہ بعد میں۔ ہمیں تو ابھی جب طبعیت زیادہ خراب ہوئی تو پتہ چلا ورنہ ہمیں تو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ بات چھپانا تو ان کا خاندانی مرض ہے۔ جس دن پوری بات بتا دیں ہچکیاں لگ جاتی ہیں۔ میں سمجھ جاتی ہوں۔

اب وہ ادھر ادھر کی باتیں لے کر بیٹھ گئی تھیں۔ میں پھر تھائی لینڈ پر لے آیا: کبھی چھٹی وغیرہ لیتے تھے اس سلسلے میں؟

کچھ دیر سوچتے ہوئے بولیں: شادی سے پہلے کا تو ان کے گھر والے جانیں، پوچھوں گی بھی تو نہیں بتائیں گے۔ ہاں شادی کے بعد تو انہوں نے کبھی چھٹی نہیں کی البتہ اپنے دفتر کے دوسرے شہر والے دفتر مہینے میں دو چار دن کے لئے جاتے ہیں۔ حساب کتاب جو دیکھتے ہیں اس دفتر کا۔

میں نے کہا: مطلب حساب کتاب برابر کرکے آتے تھے۔ پیسے ویسے کتنے لے جاتے تھے؟

شوہر کی طرف مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے بولیں: دفتر والے ہی دیتے ہوں گے۔ میں نے اس کا کبھی پوچھا نہیں۔ مجھ سے مانگتے تو ایک روپیہ نہ دیتی۔ پھر میری طرف دیکھ کر تفتیشی انداز میں پوچھنے لگیں، لیکن یہ سب آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟

دوست کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ بولنے کو بےتاب ہے مگر بیوی کے سامنے لب بستہ بلکہ دم بخود ہے۔ میں نے بات آگے بڑھائی: جب واپس آتے تو کچھ لاتے تھے؟ برا سا منہ بنا کر بولیں: زیر۔ میں نے جھٹ کہا: کبھی آپ نے کھایا تو نہیں؟ ہلکا سا مسکرا کر بولیں: طنز میں کہہ رہی ہوں۔ یہی اپنا سوکھا سا منہ لئے چلے آتے۔ میں نے کتنی بار کہا وہاں کی بیڈ شیٹیں اتنی اچھی ہوتی ہیں۔ کبھی ایک دو لے آو۔ کہتے تمہارا خیال ہے میں وہاں بیڈ شیٹوں کے لئے جاتا ہوں۔

دوست کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آٹھ کر چلا جائے یا میرا گلا ہی دبا دے۔ میں نے کہا کب تک علاج چلے گا؟

بھابھی نے مجھے جواب دینے کے بجائے اپنے شوہر سے ڈانٹانہ انداز میں کہا: دیکھ لیا اس کا نتیجہ؟ اور چھپاو بیوی سے۔ اب بھگتنا تو ہمیں پڑ رہا ہے۔ پھر میری طرف مخاطب ہوئیں: ان کا کیا ہے پڑ گئے بستر پر۔ کل کلاں کو کچھ یو گیا تو لوگ کیا کہیں گے ایک تھائی لینڈ کے مریض کو سنبھال نہ پائی۔

خیر کچھ دیر بعد وہ چائے لانے کا کہہ کر گئیں تو میں نے دوست سے پوچھا: تم تو بڑے گھنے نکلے۔ تھائی لینڈ کے چکر لگا آئے۔ دوست نے اپنا سر پکڑ لیا۔ کہنے لگا: یہاں یہ آفس آنے جانے کے کرائے تک کا تو حساب رکھتی ہے۔ شہر سے باہر جاوں تو آفس والے اتنے کم پیسے دیتے ہیں کرائے اور کھانے کے علاوہ ایک کولڈ ڈرنک تک کے پیسے نہیں بچتے۔ میں نے کہا: پھر تھائی لینڈ کیسے ہو آتے ہو؟ دوست نے ہاتھ جوڑ لئے: یار اس نے میری عزت کا ستیاناس کردیا ہے۔ گڑھوں پانی پڑ جاتا ہے مجھ پر۔ دعائیں کرتا ہوں کوئی مجھے پوچھنے نہ آئے۔ اپنے گھر والوں کو تو میں نے بتا دیا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ یہاں کوئی نہ آنا لیکن اس نے پورے سسرال اور محلے میں تھائی لینڈ کا گا دیا ہے۔: میں نے کہا: تو احتیاط کرتے بتایا کیوں تھائی لینڈ کا؟

دوست نے بتایا: یار یہ جو تمہاری بھابھی ہے ناں۔ بہت بڑی انگریز ہے۔ تمھیں پتہ ہے یہ تھائی لینڈ کسے کہہ رہی ہے؟

میں نے کہا: کسے؟ سڑا سے منہ بنا کر بولا: تھائی رائیڈ *

(* تھائی رائیڈ گلے کی ایک بیماری کا نام ہے)

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Taleem Baraye Farokht

By Khalid Mahmood Faisal