Aap Ko Kya Pata? Hum Waldain Se Kyun Kehte Hain?
"آپ کو کیا پتہ؟" ہم والدین سے کیوں کہتے ہیں؟
ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ جا رہا تھا۔ والد صاحب کم گو تھے۔ خاموشی سے سفر طے ہو رہا تھا۔ میں نے یہ سوچ کر کہ چلیں کوئی بات کرتے ہیں۔ والد صاحب سے پوچھا: ابو آپ کی اپنے بیٹوں کی صلاحیتوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ یقینا میں بڑا تھا۔ اس لیے پہلی رائے میرے بارے میں آنی تھی۔ کہنے لگے: آپ محنتی پہلے ہیں اس کے بعد ذہین۔ یہ بات میرے لیے حیران کن تھا۔ کاہل تو میں سدا کا ہوں۔ آج بھی برملا یہی کہتا ہوں کہ میری جتنی بھی کامیابی ہے، میری کاہلی کی وجہ سے ہے۔ دوسری رہی ذہانت کی بات تو اس معاملے میں مجھے یقین ہے کہ میں ذہین نہیں مگر کیونکہ یہ والد نے کہا ہے تو اس بارے میں کچھ کہنے کی گنجائش کم از کم میرے لیے نہیں۔
کم عمری نعمت ہے مگر اسے والدین کے لیے دکھ یا زحمت نہ بنائیں۔
اس واقعے کو بتانے کا مقصد صرف ایک ہے کہ آپ کے بارے میں سب سے بے لاگ، حقیقی اور دیانتدارانہ رائے والدین کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔ ہم لوگوں کی رائے پر یقین کر لیتے ہیں۔ خوش اور اداس ہو جاتے ہیں۔ دست شناسوں سے، نجومیوں سے، تاریخ پیدائش سے خوبیاں، خامیاں چھانتے رہتے ہیں۔ والدین نہ دست شناس ہوتے ہیں نہ ماہر نجوم لیکن آپ کی سوچ کی ساری لکیریں اور آسمانِ زیست کے سارے ستاروں کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے وہ آپ کے معیار سے ڈگری یافتہ نہ ہوں، پڑھے لکھے نہ ہوں مگر یہ یاد رکھیں آپ ان ہی بے ڈگری اور غیر تعلیم یافتہ ہاتھوں میں پلے بڑھے ہیں۔ اللہ تعالٰی کے بعد اگر کوئی آپ کو جانتا ہے تو وہ آپ کے والدین ہی ہیں۔ وہ ایک جملے یہاں تک کہ ایک لفظ سے آپ کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرتے ہیں۔
اگر آپ سے زیادہ کسی کو آپ کے بارے میں پتہ ہوتا ہے وہ والدین ہی ہوتے ہیں اور آپ انہی سے کہتے ہیں آپ کو کیا پتہ؟ ممکن ہے تمام معاملات کا ان کو پتہ بھی نہ ہو لیکن اتفاق سے جب آپ اپنے بارے میں کوئی بات یا فیصلہ کرتے وقت آن کے مشورے یا رائے پر "آپ کو کیا پتہ؟" کہتے ہیں تو بڑا ظلم کرتے ہیں۔ کم عمری ایک نعمت ہے مگر اس کو والدین کے لیے دکھ یا زحمت کا سبب نہ بنائیں۔
والدین سے آپ کا کچھ بھی تو چھپا نہیں۔
ہم پڑھ لکھ جاتے ہیں تو والدین کو "جاہل" (یہ لفظ نہ چاہتے ہوئے بھی لکھنا پڑ رہا ہے) سمجھتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دنیا دیکھی ہی نہیں۔ دنیا تو نہیں مگر آپ کو تو پیدائش کے روز سے دیکھا ہے اور جانا ہے۔ آپ کو کیا پتہ؟ میں اگر وہ آپ کو کھول کر بیان کر دیں تو آپ ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیں گے۔ پروردگار کے بعد جتنا پردہ والدین رکھتے ہیں، کوئی نہیں رکھتا اور اس پردہ پوشی کو آپ کو کیا پتہ؟ کے خانے میں رکھ دیتے ہیں۔ پروردگار آپ کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ یاد رکھیں والدین آپ کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ پروردگار اگر اپنی یہ صفت والدین کو نہ عطا کرتا تو کسی بندے کی خطا چھپنے والی نہیں تھی۔
والدین سے اچھا مشورہ کوئی نہیں دے سکتا۔
اولاد کے معاملے میں کوئی ماں باپ لاعلم نہیں ہوتے ہیں۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم اپنی اوقات اور دنیاوی علم پر ماں باپ کی ذہانت کو پرکھتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ پروردگار نے آپ کو اس دنیا میں لانے کے لیے ان دو کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ وہ پروردگار جو خبیر ہے کیا آپ خدانخواستہ اسے چیلنج کر رہے ہیں؟ ماں باپ کی باتیں بہت دھیان سے سنا کریں۔ اس پوری کائنات میں ان سے اچھا مشورہ آپ کو کوئی نہیں دے سکتا۔ ان کے کہے میں لفظوں کا انتخاب اور گنجلک فلسفہ تلاش مت کریں۔ دنیا میں ساری بڑی باتیں سادگی سے کہی گئی ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت قرآن مجید ہے۔ یہ والدین ہی ہیں جو اولاد سے سب زیادہ سادہ و بامعنی بات کرتے ہیں اور ہم انہیں اپنے علم و فلسفے میں تولنے لگتے ہیں۔
موٹیویشنل اسپیکرز کو چھوڑیں۔ والدین کے پاس بیٹھیں۔
دنیا میں کامیاب رہنے کے لیے آپ لاکھ کتابیں پڑھ لیں۔ موٹیویشنل اسپیکرز کے مہنگے مہنگے لیکچرز سن لیں۔ اس کے جواب میں کچھ دیر والدین کے پاس بیٹھ کر، ان سے بات کرکے دیکھیں یہ کتابیں اور اسپیکرز ہیچ نظر آئیں گے۔ میں آپ کو اپنی زندگی کا ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ والد کی ایک بات نے میری سوچ کا محور بدل دیا تھا جو مثال انہوں نے دی تھی میں کتنی بھی کتابیں پڑھ لوں لیکن اس موقع کے لیے اتنی برمحل مثال نہیں لا سکتا۔ میں اپنی کاہلی، طرم خانی اور احمقانہ اعتماد کے باعث کوئی کام مکمل نہیں کرتا تھا۔ جہاں دیکھا کہ اب کام پایہ تکمیل تک پہنچنے والا ہے، اسے چھوڑ دیتا۔
گول پوسٹ اور آخری کک۔
ایک دن والد صاحب کہنے لگے: آپ کی مثال فٹ بال کے اس کھلاڑی کی سی ہے جو مخالف ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو ڈاج دیتا ہوا مخالف ٹیم کے گول پوسٹ پر پہنچتا ہے۔ اب سامنے گول کیپر ہے اور آپ ہیں۔ آپ گول کر سکتے ہیں مگر آپ اپنی طبیعت کے باعث ایسا نہیں کرتے اور فٹ بال چھوڑ کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کک لگائیں تو گول ہو بھی سکتا ہے مگر آپ ایسا نہیں کرتے۔ اگر آپ کا یہی رویہ رہا تو تمام محنت کے باوجود کامیاب نہ ہو پائیں گے۔ اس بات کے بعد میں نے یہ طے کر لیا کہ گول کرنے کے لیے آخری کک ضرور لگاؤں گا اور پھر کچھ نہ کچھ ہاتھ آتا ہی گیا۔
ڈاکٹر کے پاس جانے سے پہلے والدین کی دعا لے لیا کریں۔
آپ کے محلے میں بہت سارے ڈاکٹرز ہوں گے لیکن ہر ایک کلینک نہیں چلتی ہوگی۔ کوئی ایک ہوگا جس پر سب زیادہ مریض آتے ہوں۔ مریضوں کا یہی کہنا ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں بہت شفا ہے۔ شفا تو رب العزت دیتا ہے۔ ڈاکٹر تو محض ایک ذریعہ ہے۔ میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ ماں یا باپ اگر کسی بیماری پر کوئی ٹوٹکا بھی بتا دیں تو وہ بااثر ہوتا ہے۔ شفا تو من جانب اللہ ہے مگر اب اس میں ان کا وہ سادہ سا ٹوٹکا مع دعا بھی شامل ہے اور والدین کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ میری مانیں تو ڈاکٹر کے پاس جانے سے پہلے والدین کی دعا لے لیا کریں۔
پتہ نہیں آپ کو پتہ ہے کہ نہیں؟
دنیاوی مشکلات سے آخرت کے جہنم تک اگر کوئی آپ کو بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ صرف والدین ہیں۔ بشرطیکہ آپ ان کا حق ادا کریں، ان کے کہے پر صدق دل اور یقین کامل کے ساتھ عمل کریں۔ پتہ نہیں آپ کو یہ بات پتہ ہے کہ نہیں؟ مشہور ہے کہ رب راضی تے جگ راضی۔ میں کہتا ہوں ماں باپ راضی تے رب راضی تے جگ راضی۔