Safar Nama (1)
سفرنامہ(1)
سفرنامہ لکھنے کا رواج اب ختم ہوتا جا رہا ہے یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ختم ہو چکا ہے۔ مگر میں کیا کروں، مجبور ہوں۔ ایک تو لکھنے کا شوق اور اوپر سے میری کچھ خوبصورت یادیں، میرے سفر سے جڑی ہوئی ہیں۔
میں طبیعتً چونکہ خاموش اور کم گو انسان ہوں تو مجھے جگہیں بھی ایسی ہی پسند آتی ہیں۔ خاموش اور پُر سکون۔ ویسے تو میرے سفر کا آغاز کراچی سے ہوا تھا اور راستے میں کئی شہر آئے تھے مگر آج مجھے taxila بہت یاد آ رہا ہے۔ جو لوگ تاریخ پڑھ چکے ہیں ان کو کچھ نہ سہی تب بھی کم از کم اس شہر کا نام ضرور یاد ہو گا۔ مجھے بھی صرف نام ہی یاد تھا اور وجہ صاف تھی کہ history کی استانی کبھی دل کو پسند نہ آئیں تو ظاہر ہے ان کا پڑھایا ہوا بھی دل کو نہ لگا۔
بہرحال taxila میرے سفر کا حصّہ نہیں تھا۔ بنیادی طور پر تو ہم کراچی سے اسلام آباد اور پھر وہاں سے ناران جانے کے لیے نکلے تھے جو کہ ایک سیدھا موٹروے سے گزر کر آ جاتا ہے مگر ہمارے tour guide نے کچھ اندرونی راستہ اختیار کیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہم پنڈی سے، پہلے ہری پور اور پھر وہاں سے taxila شہر میں داخل ہو گئے۔ ویسے تو راستے بھر ہلکی ہلکی بارش کی وجہ سے سڑکیں گیلی اور ویران تھیں (سوائے پنڈی کی سڑکوں کے۔ وہ گیلی تھیں لیکن ویران نہیں تھیں)۔
مگر taxila کی ہوا بھی ویران تھی یا یوں کہیے کہ خاموش، بھینی، خوشبودار اور ٹھنڈی تھی۔ ویسے تو ہم نے پورا taxila نہیں دیکھا تھا بس اس شہر کی چند سڑکیں ہی دیکھیں تھیں مگر ایک سڑک آج بھی بار بار یاد آتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اس دن بارش ہو رہی تھی۔ ہلکی اور ٹھنڈی پھوار اس لیے وہ ایک لمبی خالی سڑک بھی گیلی اور ٹھنڈی ہو رہی تھی۔
سڑک کے دونوں طرف دور تک پھیلا جنگل تھا یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سڑک کے دونوں طرف ایک سے لمبے لمبے درخت تھے جو دور تک اور اندر تک پھیلے ہوئے تھے۔ درختوں کے پاس مٹی پر سوکھے پتّے گرے ہوئے تھے اور وہ اتنی تعداد میں تھے کہ مٹی نظر ہی نہیں آتی تھی۔ صرف خوشبو سے پتا لگ رہا تھا کہ ان پتوں تلے مٹی بارش کی وجہ سے گیلی ہو چکی ہے۔ وہ درخت بھی کچھ عجیب سے تھے۔ ایسے درخت اور اتنے درخت میں نے کبھی ایک ساتھ نہیں دیکھے تھے۔
کم از کم کراچی کی کسی سڑک پر تو نہیں (ماسوائے ایک کے جس کا ذکر کبھی اور کرونگی)۔ وہ سارے درخت ایک سے تھے۔ لمبے، بھورے تنّے، ہرے گیلے پتے اور اپنے پیروں میں سونے کی چادر لیے ہوئے۔ ہماری گاڑی رواں تھی اور مجھے آج بھی یاد ہے کہ کھڑکی کی طرف بیٹھنے کی وجہ سے ٹھنڈی ہوا اور بارش کی چند بوندیں میرے چہرے اور میرے بالوں کو چھو رہی تھیں۔ اور اِس ساری خوبصورتی کے ساتھ، مجھے یہ جنگل پوری خوبصورتی کے ساتھ محسوس ہو رہا تھا۔ (taxilla میں رہنے والوں سے معذرت کہ میں اسے جنگل کہہ رہی ہوں لیکن میرا یقین کیجۓ کہ تعریف ہی کر رہی ہوں)۔
اِس سڑک کے اختتام پر میں نے قطار در قطار قبریں دیکھیں۔ ہم کراچی والوں کے لیے یا کِسی بھی بڑے شہر والوں کے لیے یہ منظر بہت عجیب ہوتا ہے مگر میں کیونکہ ایسا ہی ایک منظر گجرانوالہ میں دیکھ چکی تھی اس لیے حیرت مجھے قبریں دیکھنے پر نہیں بلکہ اتنی تعداد میں دیکھنے پر ہوئی تھی۔ وہ سب بہت ڈراؤنا تھا۔ ہر چھوٹے چھوٹے گھر کے باہر بھی کم از کم تین قبریں تھیں اور ساتھ بے انتہا وہشت۔
اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ میں جتنی دیر تک اس شہر میں رہی، اِس شہر کی خاموشی میرا استقبال کرتی رہی۔ خالی ویران سڑکیں، چند ایک دکانیں، گھروں کے خاموش صحن اور بند دروازے۔ جب اتنی ویرانی اور خاموشی تھی تو پھر یہ قبریں اتنی کیسے تھیں اور کس کی تھیں؟ ہے نہ عجیب بات۔ تاریخ دان شاید یہ کہیں کہ یہ قبریں پرانے لوگوں کی ہیں لیکن میرا سوال پھر بھی وہی ہے کہ پرانی ہیں تو یوں اس طرح بیچ راستے میں کیوں ہیں؟ اور ایسے کون اپنے گھروں کے باہر ہی قبریں بنا دیتا ہے؟
کوئی اپنا چاہے کتنا بھی پیارا کیوں نہ ہو مردہ ہونے کے بعد سب کو ہی اس سے خوف آتا ہے۔ لیکن بہرحال taxilla کے مکینوں کو میرا سلام ہے۔ آپ لوگ واقعی بہت بہادر ہیں۔ یہ بہادری کا خطاب صرف اس لیے نہیں دیا کیونکہ وہ اس خطرناک جگہ پر رہتے ہیں بلکہ اس لیے بھی دیا ہے کیونکہ taxilla میں زیادہ تر لوگوں کا کاروبار ہی قبریں بنانے کا ہے۔ بنیادی طور پر تو یہ ماربل کا کام ہے مگر دکانوں کے باہر میں نے قطبوں کو بھی بکتے اور design ہوتے دیکھا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ترین قطبے، اونچے مہنگے خوبصورت قطبے۔
حیرت ہوئی تھی مجھے کہ کیا قطبے بھی خوبصورت ہوتے ہیں؟ اور کیا انہیں بھی design کروایا جاتا ہے؟ مجھے تو ذاتی طور پر قطبے کبھی پسند نہیں آئے۔ اگر میں قبر میں ہوتی اور اپنے گناہوں کی سزا پا رہی ہوتی تو میں یہ کبھی نہ چاہتی کہ کوئی جان پہچان والا مجھ تک آئے۔ کیا پتّا اُسے اندر کے عذاب کی آوازیں سنائی دے جائیں۔ اللہ سے تو خوف کبھی انسان کو کبھی آیا ہی نہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی انسان اللہ سے کم بندوں سے زیادہ شرمندہ ہو گا۔
بہرحال قبر کا حال قبر والے جانیں یا اللہ لیکن قطبے مجھے پھر بھی کبھی سمجھ میں نہیں آئے۔ ایک اور چیز جس نے مجھے بڑا fascinate کیا وہ تھا taxilla کا ایک پہاڑ۔ وہ لال رنگ کا تھا اور دھوپ میں عجیب طرح سے چمک رہا تھا۔ (بارش ہلکی ہو رہی تھی اور اس پہاڑ تک پہنچتے پہنچتے دھوپ نکل آئی تھی)۔ وہ ماربل کا پہاڑ تھا۔ Mining کا کام جاری تھا اور میرا خیال ہے کہ بارش میں دُھل کر چونکہ وہ ماربل صاف ہو گئے تھے اس لیے دھوپ میں زیادہ چمک رہے تھے۔ اس پہاڑ کے اندر بھی کام چل رہا تھا اور شاید ایک گھر بھی تھا۔
عجیب پرانا شہر تھا۔ میری یادوں سے آج بھی نہیں جاتا۔ اُس پہاڑ کے بعد چند ایک میدان آئے تھے اور پھر ہم شہر کے مضافات سے باہر نکل گئے تھے۔ مجھے آج بھی وہ جنگل والی گیلی سڑک پکارتی ہے۔ اب کی بار گئی تو گاڑی رکوا کر اُتر کر دیکھوں گی کہ اُس جنگل کی گہرائی کتنی ہے؟ دوسری طرف کیا ہے؟ اور اگر کبھی واپس نا جا پائی تو بڑھاپے میں کم از کم ایک ایسی جگہ گھر بناؤنگی جس کے آس پاس بالکل ویسا ہی جنگل ہو۔ تاریخی اور خاموش۔
جہاں پتھر گرنے سے بھی آہٹ پیدا ہو جائے اور رونے کی آواز بھی کوئی نا سنے۔ میں آج بھی سوچتی ہوں کہ taxilla اپنے اندر ناجانے اور کتنے رنگ لیے ہو گا۔ کتنی کہانیاں دفن ہونگی وہاں اور کیا کوئی ایسا کونا بھی ہو گا اس شہر کا جو شور مچاتا ہو گا۔
دعا کیجئے گا کہ تقدیر مجھے ایک بار پھر اس شہر میں لے جائے۔
شکریہ

