Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Awais Qayyum Rana/
  4. Mullah Muhammad Umer

Mullah Muhammad Umer

ملا محمد عمر

اللہ تعالٰی نے ہر دور میں اپنے دین کی سر بلندی اور اشاعت کے لئیے ایک ایسی شخصیت کوافق عالم پر ابھارہ جس نے اپنی خداد دادصلاحیتوں سے تمام عالم اسلام کو مستفید کیا اور عالم کفر کو ناکوں چنے چبوائے ایسی ہستیوں کو دنیا آج تک محبت و احترام کےالقابات سے یاد کرتی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جب بھی کافروں نے مسلماناں پر یلگار کی تو انہیں اپنے مدِمقابل کسی نہ کسی ایسے جوان رانا کو ضرور پایا جس نے ان کے دانت کھٹے کئیے رکھے اور اپنے چھوٹے چھوٹے دستوں اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے دشمنوں کے لشکروں کو کاٹ کر پھینک دیا اور انہیں ایسی شکست سے دو چار کیا کے وہ رہتی دنیا کے لئے نشانِ عبرت بن گئے۔ انہیں عظیمہحستیوں میں ایک نام امیرالمومنین حضرت ُملامحمد عمر مجاہدؔ کا ہے۔

آپ عظیم علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں صدیوں سے آپ کا خاندان دینی خدمت کے حوالے سے معروف ہے۔ آپ ہوتک نامی نامورقبیلہ کی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں جو قندھار میں تقریبً ایک سا سال سے آباد ہے۔ آپ قندہار کے ایک چھوٹے سے گاوں چاہ ہمت میں 1960 میں پیدا ہوئے۔ جہاں انکے والد محمد غلام نبی مدرسہ اور مسجد میں تدریس اور امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ آپ ابھی 5 سال کے ہی تھے کے آپ کے والد غلام نبی انتقال کر گئے۔ والد کے وفات کے بعد نا آپ صرف یتیم تھے بلکے اکلوتے بیٹے بہن بھائیوں سےمحروم والدین کی واحد اولاد تھے اس وقت تک کوئی سوچ بھی نہیں تھا سکتا یہ بندہ امیرالمومنین بنے گا۔

18 برس کی عمر میں آپ نے میدان جنگ کا رخ کیا دینی تعلیم میں فقہ حنفی کی سب سے اونچی جماعت ہدایہ پڑھ رہے تھے کے1978میں افغانستان میں کمیونسٹ نواز انقلاب شور برپا ہوتے ہی ہزاروں دین داد اور غیرت مند جوانوں نے جب اس بڑھتے سرخ سیلاب کےآگے بندھ باندھنے کا اعلان کیا تو اللہ کے ان سپاہیوں میں 18 سالا وہ پر جوش جوان بھی ہاتھوں میں اسلحہ تھامے غضبناک طریقےسے شامل ہوا۔ آپ روسیوں کے خلاف میدان جہاد میں لڑتے ہوئے چار بار شدید ذخمی ہوئے۔ سنگ سار کے علاقہ میں روسیوں کے ساتھایک خون ریز جنگ میں جب چوتھی بار شدید ذخمی ہوئے تو اس بار انکی دائیں آنکھ بھی شہید ہو گئی۔

ملا عمر کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کے آپ کو شدید ذخمی حالت میں کوئٹہ ہسپتال میں لایا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے ہدایت کی کےنماز تیمم کر لے پڑھیں اور زخموں کو پانی سے بچا کےرکھیں ورنا سنگین خطرہ ہو گا مگر ڈاکٹروں کی ہدایت کے برعکس ملا عمر ہرنماز وضو کر کے پڑھتے رہے اور آپ فرماتے تھے معمولی زخم کی وجہ سے وضو چھوڑ دوں یہ نا ممکن ہے۔ آپ طالبان کے سب سے بڑےقائد تھے آپ کو امیرالمومنین کا لقب دیا گیا۔ آپ نہایت ہی پرہیزگار اور سادہ انسان تھے۔

ملا عمر اس زمانے کیں ملامحمدنبی محمد مولوی کی تنظیم انقلاب اسلامی کے علاقائی کمانڈر تھے۔ آپ اینٹی ٹینک راکٹ میں انتہائی مہارت رکھتے تھے۔ ان دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے آپ کے ایک ساتھی کا کہنا ہے کے ایک مرتبہ ضلع پنجوائی میں ایک روسی ٹینک پنجوائی میں زمین میں چھپا ہوا تھا اور اس کی گولا باری سے مجاہدین کا بہت نقصان ہو رہا تھا۔ کافی ساتھی شہید ہو چکے تھےاس ٹینک کی شدید گولا باری کے بحث مجاہدین کافی دباو کا شکار تھے کیونکہ روسیوں نے انتہائی مہارت سے روسیوں نے ٹینک کوایسی جگہ زمین میں اتار رکھا تھا جہاں مجاہدین کے مورچوں سے اس کا ٹھکانا لینا بہت مشکل تھا مگر ملا عمر نے تہ کر لیا تھا وہ اسکو ٹھکانے لگا کر ہی دم لے گا۔ چنانچہ آپ نے لانچر سے مسلسل 15 راکٹ فائر کئے بلآخر 16 راکٹ میں اللہ نے ٹینک کے پرخچے اڑادئیے۔

1991 میں ڈاکٹر نجیب کی کیمونسٹ جماعت کے خاتمے بعداور ملک میں تنظیمی جھگڑوں کے آغاز کے ساتھ دیگر مخلص مجاہدین کےساتھ اپنا اسلحہ اتارا اور اپنے آبائی گاوں میں ابراہیم مسجد کے ساتھ ایک دینی مدرسہ قائم کیا اور اسی مدرسے میں رہنے لگے۔ مشکلات اور مصائب سے بھرپور 14 سالا جہاد کے بعد ایک بار اپنے چند مجاہدین ساتھیوں کے ساتھ اپنے ادھورے اصول علم کےسلسلے کی تکمیل کرنے لگے یہ وہ وقت تھا جب قابل سمیت پورا ملک بے مقصد تنظیمی جھگڑوں میں جل رہا تھا روس افغانستان سےرخصت ہوا تو افغانستان لوٹ مار، بد امنی اور قتل و غارت کا گڑھ بن گیا کچھ تنظیمی لوگوں نے دنیاوی آسائشوں کی خاطر آپس میں ہی لڑنا شروع کر دیا۔ قابل شہر کے دونوں اطراف توپیں نسب تھی اور شہر کھنڈر بن چکا تھا۔ نجیب اللہ ایک بے طاقت اور مجبورمحض حکمران کی صورت میں موجود تھا۔

ملا عمر ایک دردِ دل رکھنے والا انسان جو مسلمانوں کے اس آپس کی لڑائی کی وجہ سے بہت دُکھی رہتا تھا۔ اس کے لئے یہ لوگ اجنبی نا تھے۔ افغان جہاد میں وہ اکھٹے لڑتے رہے لیکن طاقت اور غلبے کے حوس نے انہیں کیا بنا دیا تھا۔ چمن سے قندھار تک وہ ہرگروپ سے واقف تھے۔ آپ اس کو کہانی سمجھیں یا جو بھی لیکن ایک دن ملا عمر نے اپنے ساتھیوں سے کہا میں نے خواب میں رسولٌ کو دیکھا انہوں نےمجھے کہا "اٹھو جہاد شروع کرو امن قائم کرو۔ اللہ تمہیں کامیابی دے گا۔

پھر تمام لوگ جانتے ہیں کے ملا عمر نے جبہ رسولٌ نکالا اور اس جب پر جوق در جوق لوگوں نے بیت کی۔ اس کے بعد رسولٌ کی دی ہوئی بشارت کا وقت آیا اور ایک گولی چلائے بغیر قندھار کی تمام فوج نے ملا عمر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ اس کی کامیابیوں کا یہ ایک سلسلہ ہے یہ چند ہزار لوگ جس جانب بڑھے فتح انکے قدم چومتی رہی۔ اتنے کم مزاحمت کے صرف چند دنوں میں 90% افغانستان ملاعمر کے زیرِنگیں تھا۔ ساری دنیا حیران تھی کے یہ سب کیسے ہو رہا ہے کے جس افغانستان میں 100 سال جنگ رہی وہاں امن قائم ہوتاجا رہا تھا۔

جب طالبان افغانستان میں قوت کے طور پر مستحکم ہو گئے اور ملا عمر کو امیرالمومنین کی حیثیت سے مانا جانے لگا تو پھر پاکستان کو بھی خیال آیاکہ اب اس حکومت کو مان لینا چاہئیے۔ ملا عمر سمجھتا تھا کامیاب ریاست وہ ہے جہاں ریاست کا وجود نظر نہ آئےاور لوگ کاروبار و زندگی جاری رکھیں۔ ہر بڑے شہر میں 10 اور چھوٹے شہر میں 7 طالبان سپاہی ہوتے تھے۔ اور سپین بلدک جیسی منڈی جہاں اربوں کا کاروبار تھا وہاں لوگ دکانیں ُکھلی چھوڑ کا نمازیں پڑھنے جاتے تھے۔ لوگ پاکستان سے طالبان کے پاس اپنےفیصلے کروانے جایا کرتے تھے۔

9/11 خودساختہ حملے کے بعد امریکہ نے افغانستان سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو طالبان نے امریکہ کے سامنے 3 شرائط رکھی اور امریکہ نے کسی کو بھی نہیں مانا اور حملہ کر دیا۔

ملا عمر سے جب اسامہ کے بارے میں انٹرویو کیا گیا تو انہوں نے کہا " تمام حکومتیں ہمارے مقابلے پر آئیں تو بھی دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اسامہ کو حوالہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ اسامہ ہمارامہمان ہے ہم اسے کسی کے دباو یا لالچ میں کسی کے حوالے نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی غیرت مند مسلمان کسی مسلمان بھائی کوکفار کے حوالے نہیں کر سکتا۔ ہم اسامہ کی حفاظت آخری دم تک کریں گے اور ضرورت پڑی تو اپنے خون سے اس کی حفاظت کریں گے۔ امریکی CIA نکمی اور بے کار ہو چکی ہے۔ وہ اپنے نااہلی چھپانے کے لئے ہر دھماکے کا الزام اسامہ پر لگاتی ہے۔ اسامہ کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کے وہ اتنے دور دراز علاقوں میں بم دھماکے کروائے"۔

اس انٹرویو کے چند دن بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ رات کے اندھیرے میں کروز میزائلوں سے کئے جانے والےاس حملےسے افغانستان میں بہت تباہی پھیلی۔ مگر اس مردِ قلندر کا اب بھی وہ ہے موقف تھا۔ ان حملوں کے بعد بی بی سے نے ملا عمر کا پھرسے انٹرویو کیا۔ ملا نے کہا " پورا افغانستان بھی الٹ جائے اور ہم تباہ اور برباد بھی ہو جائیں تو بھی شیخ اسامہ کو کسی کے حوالے نہیں کریں گے۔ میری غیرت برداشت نہیں کرتی کے کسی مسلمان کو کافر کے حوالے کر دوں۔ ہماری قوم اسلامی غیرت سے سرشار ہے اور ہم ہر قسم کامقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ امریکہ جو کرنا چاہتا ہے کر لے ہم بھی جو کر سکے کریں گے۔

جب جنگ عروج پر تھی امیرالمومنین نے تمام لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ " موجودہ حالات میں ہر مسلمان کو اس کا ایمان اور اس کی غیرت للکارتی ہے کہ وہ ثابت قدم رہیں گے۔ اگر ایمان اور غیرت نہ ہو گیتو مسلمان ہمیشہ خوف زدہ ہوں گے اور پھر انکا احترام روہے زمین پر نا ہو گا۔ لیکن آخر کاروہ بے ایمانی اور بے غیرتی کی حالت میں مریں گے۔ میری زندگی بھی خطرے میں پھر بھی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اگر میں کفار سے موافقت کر لوں تو میری ہر چیزمستحکم ہو گی۔ میری بادشاہی اور سلطنت بھی قائم رہے گی جیسے دوسرے ملکوں کے سربراہوں کی ہے۔ پیسہ، طاقت سب کچھ قائمرہے گا لیکن میں اسلام کی خاطر ہر قربانی دینے کو حاظر ہوں۔ سب کچھ کرنے کو حاضر ہوں۔

حال ہی میں ڈچ صحافی بیٹی ڈیم نے ملا عمر پر ایک کتاب لکھی۔ بیٹی ڈیم نے ملا عمر کی 12 سالہ گوشہ نشینی کے بیشتر معلومات ان کے آخری وقت کے ساتھ ملاعبدل جبار عمری سے حاصل کی ہیں۔ جس میں اس نے بتایا طالبان رہنما ولی اللہ کے درجے پر فائز ہوچکے ہیں اور انہیں الہام ہوتا ہے۔ وہ دیر تک ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے ہیں۔ ایک سپہر عبدالجبار نے ملا عمر کو دیور سے ٹیک لگائےدیکھا تو ان کی آنکھیں بند تھی عبدالجبار کو خدشہ ہوا کہ وہ سو رہے ہیں اور انکی نماز قضا ہو جائے گی۔ لہازا انہوں نے ملا عمرکو ہلا کے اٹھانے کی کوشش کی۔ ملا عمر اس پر برہم ہو گئے تا ہم اگلے کھانے پر انہوں نے عبدالجبار سے معزرت کی اور بتایا کہ وہ عبادت کر رہے تھے۔ ملا عمر کی وفات کے دن افغانستان کے خوشک علاقہ میں شدید ژالہ باری ہوئی جو پہلے کبھی نا ہوئی تھی۔ 2103میں ملا عمر بیمار ہوئے انکو کھانسی اور قہ کی شکایات تھی۔ لیکن انہوں نے کہا میرا وقت آآ گیا ہے اور انہوں نے ساتھیوں کے اسرارکے باوجود اپنا علاج نہیں کروایا۔

اس طرح 23 اپریل 2013 کو ملا عمر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ملا عمر کو انکے ساتھیوں نے رات کے وقت بغیر نشانی والی جگہ دفن کیا۔ اللہ ان کی قبر پر رحمتیں نازل فرمائے آج انکا خواب تقریباً پورا ہو گیا۔ کفار افغانستان سے نکل گئے اگلے چند ماہ میں پھرافغانستان میں طالبان کے حکومت ہو گی اور دین اللہ کی حکمرانی ہو گی۔

Check Also

Apni Jaron Se Miliye

By Arif Anis Malik